شاعر فطرت عبدالقادر قادریؒ

جہلم کی سرزمین سطح مرتفع پوٹھوہار کا بے حد زرخیز علاقہ ہے جس نے شعبہ ہائے زندگی میں بیشمار انمول نگینوں کو جنم دیا ہے اس حوالہ سے آج کی شخصیت کا تعلق شعر و ادب سے ہے جنہیں اہلیانِ پوٹھوہار و پنجاب شاعر فطرت جنابِ عبدالقادر قادری نوشاہی کے نام سے جانتے ہیں۔آپ نور حسین کے گھر 14 اگست 1952ء کو گاؤں چھنی گجراں منگلا روڈ جہلم میں پیدا ہوئے چار بھائیوں اور دو بہنوں میں سب سے چھوٹے تھے ابتدائی دینی تعلیم گاؤں کے مدرس سے حاصل کی جبکہ دنیاوی تعلیم گورنمنٹ پرائمری سکول چھنی گجراں اور ہشتم تک تعلیم گورنمنٹ مڈل سکول چک عبدالخالق 31 مارچ 1964 ء میں مکمل کی1970 ء میں آپ بسلسلہ روزگار خاندان سمیت ٹھیکریاں روڈ دینہ ضلع جہلم میں مستقل سکونت پذیر ہوئے اور تادمِ مرگ دینہ شہر کے ہی ہو کر رہ گئے۔آپ مادر زاد شاعر تھے (اسی وجہ سے آپ کا خطاب شاعر فطرت تجویز کیا گیا) جبکہ آپ شاعری میں متاثر یا یوں کہہ لیں کہ رغبت اپنے چچا فتح محمد چھنوی کی وجہ سے ہوئی آپ 1968ء میں پیر علی محمد ساقی قادری ؒ کے دست بیعت ہوئے جبکہ ادب میں بھی استاد محمد علی ساقی قادری ہی تھے۔(آپ نے اپنے مرشد و استاد کی سوانح حیات بھی تحریر کی)۔آپ کی شادی چکسواری آزاد کشمیر سے پیر سید برق نوشاہیؒ نے 1982 ء میں کرائی جسے تین بیٹے اور تین بیٹیاں تولد ہوئیں جن میں بڑے بیٹے اور بیٹی جڑواں تھے اور بڑے بیٹے محمد علی قادر کمپیوٹر سائنس میں ماسٹر ڈگری رکھتے ہیں اور شعبہء تدریس سے وابستہ ہیں۔1986ء میں دینہ میں پہلی ادبی تنظیم ”انجمن خیابانِ ادب ” کی بنیاد رکھی جس کے زیر انتظام مشاعروں اور پوٹھوہاری زبان وادب کے فروغ کے لیے ثقافتی پروگراموں کا سلسلہ شروع کیا۔ جبکہ بعد میں ضیائے ادب دینہ اور 1999ء میں غوثیہ اکیڈمی جیسی ادبی تنظیموں کی بنیاد رکھ کر ضلع جہلم کو ادبی حلقوں میں خوب پذیرائی حاصل کرنے میں مدد فراہم کی۔آپ کے ادبی قد کاٹھ کا اندازہ لگانے کے لیے یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ آپ کا کلام پاکستان کے بہترین ادبی رسائل و جرائد میں شائع ہوتا رہا ہے جن میں ماہ نو لاہور، ماہنامہ آگہی کراچی، سہ ماہی سفیر اردو برطانیہ، ماہنامہ غنیمت لاہور، ہائیکو ورلڈ کراچی، سنگ پوٹھوہار کلرسیداں اور فنون شامل ہیں۔آپ نے اوائل عمری سے جوانی تک بہت سے مشاعروں میں شرکت کی جن میں اردو اور پوٹھوہاری مشاعرے بھی شامل ہیں آپ کو عملی و ادبی حلقوں میں خاص حیثیت حاصل تھی۔ اس بات کا اندازہ ان کے ہم عصر شعراء کے ساتھ پڑھے گئے مشاعروں سے لگایا جا سکتا ہے ان کے اسماء گرامی یہ ہیں فخر ایشیا اللہ دتہ جوگی جہلمی ؒ حفیظ جالندھری، سید عبدالحمید عدم، سید احمد ندیم قاسمی، سید ضمیر جعفری، تنویر سپرا، حضرت ساغر صدیقی ؒ، پیر سید ابوالکمال برق نوشاہی ؒ، سید اختر امام رضوی، نصیر احمد کوی، حاجی محراب خاور اور پروین شاکر، جبکہ آپ کو اختر امام رضوی کی وساطت سے پاکستان ٹیلی ویژن کے پروگرام سنجھالیاں میں بھی مدعو کیا گیا۔مشہور مشاعرہ 1976 ء میں گورنمنٹ گرلز ہائر سکینڈری سکول دینہ جس کی صدارت ڈپٹی کمشنر جہلم کامران رسول نے کی اور مہمان خصوصی احمد ندیم قاسمی تھے جبکہ شعراء میں سید ضمیر جعفری،تنویر سپرا، خالد احمد،شہزاد قمر اور صدیق سورج شامل تھے۔آپ کے شاگردان میں ماسٹر گلزار سوزی ڈومیلی، میجر امجد محمود فلک، منظر عباس، مرزا خالد، مولوی شفیق احمد، امجد فارس، ضمیر جہلمی، سید وقار شاہ، اسحاق رازی، اخلاق احمد، شیخ آمین بشیر، ساگر احمد، شہزاد ارمان، تنویر اختر ناز، اتم بتول اور زرین ارمانی شامل ہیں۔ آپ کے شاگردان نے آپ کی وفات کے بعد تنظیم ”نقوشِ قادر” قائم کی جس کے زیر انتظام 15 فروری 2009 کو چار مجموعوں کی اشاعت پر تقریب رونمائی کا انعقاد کیا گیا اس تقریب کی صدارت جلیل عالی اور دیگر شعراء میں یوسف حسن، اختر عثمان اور پروفیسر نثار ترابی شامل تھے۔آپ کے قریبی دوستوں میں انجم سلطان شہباز اور خادم حسین بٹ شامل ہیں (جبکہ ان سب معلومات کو راقم الحروف تک استاد ماسٹر گلزار سوزی کے جانشین اور شاعر جہلم کے لقب سے ملقب راجہ ثاقب جاوید ساقی جہلمی نے کمال محبت سے پہنچایا جن کا بھی بندہ مشکور ہے)آپ کی کتابوں کی دستیاب فہرست یہ ہے تحائف نوشاہیہ (پیر ابوالکمال برق نوشاہی ؒکی پنجابی رباعیات کا اردو منظوم ترجمہ) یکم فروری 1989 ء کو اشاعت پذیر ہوئی۔یادگار (ادبی تنظیم ضیائے ادب دینہ کے زیر اہتمام پوٹھوہاری چوبرگہ کی خالص کتاب) 1991 ء میں شائع ہوئی۔وسنڑاں پوٹھوہار (متفرق) 1997ء خضر نوشاہی (پیر برق نوشاہی رح کے ملفوظات/خطبات کو منظوم کیا گیا ہے) دو جلدوں میں ہے اور فروری 2000ء میں شائع ہوئی۔ مثنوی بوعلی قلندرؒ (اردو ترجمہ) سوانح حیات (پیر علی محمد ساقی قادری رح)، جمال قلندر 2003ء ملک محمد اکیڈمی جہلم نے پبلش کرائی جبکہ کچھ کتب آپکی وفات کے بعد شائع ہوئیں جن کے نام یہ ہیں کچی نیند سے جاگی رت ستمبر 2007ء، نخل طور ستمبر 2008 ء، نسیمِ حجاز 2009ء، تذکرہ مشائخ قادریہ نوشاہیہ 2009ء (دو جلدوں پر مشتمل ہے اور مکتبہ نوشاہیہ جہلم نے پبلش کرائی) ان کے علاؤہ بھی کتب منصہ شہود پر ا چکی ہے جبکہ غیر مطبوعہ کتابوں کی فہرست درج ذیل ہے فارسی مجموعہ کلام، فن شاعری (عروض) نوشہ نامہ، روح سروش، اور چمنستان ادہم شامل ہیں۔ دنیائے ادب کا یہ درخشاں ستارہ، پوٹھوہار کے ادب کے ماتھے کا جھومر، ماہتاب سخن طویل علالت کے بعد 22 جنوری 2005 ء کو غروب ہو گیا لیکن اپنی سخن کی روشنی سے تشنگانِ علوم و فنون کو ہمیشہ کے لیے منور کر گیا آپ کی نماز جنازہ آپکے مرشد و استاد کے فرزند پیر حسین شاہ عارف نوشاہی نے پڑھائی اور آپکو قبرستان شیخاں میں سپردِ خاک کر دیا گیا۔ آپ کا سانحہ ارتحال بالخصوص سطح مرتفع پوٹھوہار اور بالعموم پنجاب کے لیے ایک عظیم صدمہ تھا کہ آپ محض پچاس سال کی عمر میں داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔آخر میں ایک سخن ہدیہ عقیدت
شاعر فطرت خطاب او پانڑ والا
اپنے اندر جہان اک رکھدا سی
مست وار سی غوثِ جیلاں واسطے
نوشا گنج پہچان اک رکھدا سی
علم و ادب والے گوڑھے رنگ رنگیا
شاعر ماہر او شان اک رکھدا سی
عبدالقادر سی اسم حقیر اس دا
اچا جہلم نشان اک رکھدا سی

اپنا تبصرہ بھیجیں