شادی کی رسمیں

ساجد محمود
رسم و رواج ہماری ثقافت کا ایک لازمی حصہ ہیں جن میں شادی کے موقعہ پر رسومات کی ادائیگی بھی شامل ہے 70 کی دہائی کی شادی کے انعقاد پر رسمیں آج کل کی شادیوں سے کافی مختلف ہوا کرتی تھیں گو رسمیں سادہ تھیں مگر بہت شغل دیکھنے کو ملتا تھا جبکہ آج کل کی شادی کی رسومات دولت و نمائش ثقافت سے متصادم رقص و سرود کی محافل کی عکاسی کرتی ہیں ستر اور اسی کی دہائی تک پنجاب کے دیہی علاقوں میں شہنائی اور بینڈ باجا کا رواج تھا جب دلہا سج دھج کر تیار ہوتا تو بارات بینڈ بجے کے جھرمٹ میں روانہ ہوتی ماہیوں پر کسی ڈالی جاتی اور ماہیے ٹپے گائے جاتے تھے جبکہ آج ناچ گانا میوزک اور ڈانس کی محفلیں سجائیں جاتی ہیں اس دور میں شادی رشتہ داروں یا قریبی دیہات میں طے ہوتی تھی اور دولہا گھوڑے پر سوار باراتیوں کے ہمراہ دلہن کے گھر جب پہنچتا تو دولہے کے دوست احباب ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتے بھنگڑا ڈالتے جبکہ دولہے کے رشتہ دار دوست دولہے پر ویلیں یعنی ایک روپے کے نوٹ نچھاور کرتے

بارات کی روانگی سے قبل دولہے کی بہنیں اور دیگر رشتہ دار خواتین سات کنوؤں کا پانی مٹی کی گڑولی میں بھر کر دولہے کی خوبصورتی اور شان وشوکت کے ماہیے ٹپے گاتی گھر میں داخل ہوتی تو گلی کوچے کی عورتیں بھی اس گڑولی کی رسم سے لطف اندوز ہونے کی غرض سے گھر سے باہر نکل آیا کرتی تھیں مگر آج کل گھر کے اندرونی صحن میں ہی یہ رسم پوری کر لی جاتی ہے دولہے کیساتھ بھائی چارہ یعنی دوستالہ ڈالنے کا رواج تھا جس کو دولہے کا دوست بنانا ہوتا دولہے کی ماں مٹھائی لے کر اس گھر پہنچ جاتی اگر اس گھر والے مٹھائی رکھ لیں تو دوستالہ پکا ہو جاتا تھا دولہے کے دوست ماہیوں سے لے کر بارات کی روانگی تک دولہے کے اردگرد شانہ بشانہ کھڑے رہتے اور شادی کی رسومات کی ادائیگی میں دولہے کی معاونت کرنے میں اہم کردار ادا کرتے تھے

بارات جب روانہ ہوتی تو جس گھوڑے پر دولہا سوار ہوتا گھوڑے کی لگام تھامے کر ساتھ ساتھ پیدل چلتے اور بعض دوستالے جن کے پاس اسلحہ ہوتا وقتاً فوقتاً بارات کی روانگی کے وقت پسٹل یا ریفل سے ہوائی فائر بھی کرتے اور تمام باراتیوں کو اپنی طرف متوجہ کر لیتے تھے جب باراتی دلہن کے گھر پہنچتے تو مولوی صاحب نکاح کیلیے تیار بیٹھے ہوتے نکاح کے بعد زمین پر بچھی رنگین چادروں اور دریوں پر باراتی چوپھڑ مار کر آمنے سامنے کھانا کھانے زمین پر بیٹھ جاتے باراتیوں کے کھانے میں سالن روٹی دو دو بوٹیاں،شوربہ اور بعض اوقات آلو بھی شادی کی ڈش کی زینت بنتے ایک پلیٹ میں زردہ ڈال کر باراتیوں کی خاطر مدارت کی جاتی جسے باراتی بڑے شوق سے تناول فرماتے اگر کھانا مزیدار پکا ہو تو کھانے سے فراغت کے بعد بارات میں شامل مرد وخواتین سسرالیوں کی طرف سے دیے گئے کھانے کی کئی دنوں تعریفیں کرتے نہیں تھکتے تھے اور جب کبھی دلہن کے سامنے بارات کے کھانے کے تبصرے ہوتے تو تعریف سن کر دلہن کا سر فخر سے بلند ہو جاتا تھا

چونکہ اسوقت دولہے کے قریبی بزرگوں کے علاؤہ بھی اردگرد کے محلے دار بعض بزرگ شخصیات بھی بارات میں شریک ہوتی جن میں بعض بزرگوں نے اپنے سر پر پگڑیاں بھی باندھ رکھی ہوتی تھی ان بزرگوں کے لباس کی زینت چال ڈھال میں لپٹی پروقار شخصیت بارات کی رونق اور حسن کو چار چاند لگا دیتی تھی دوسری طرف خواتین باراتیوں میں بھی بزرگ اور سگھڑ خواتین شامل ہوتی جو سسرالیوں کے بے جا خواہشات کی تکمیل کے درمیان ایک سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوتی شادی کے موقعہ پر بزرگوں کے قول کا بڑا مان رکھا جاتا تھا بزرگوں کی یہ روایت تھی کہ بارات کو مغرب سے پہلے پہلے گھر لوٹ آنا چاہیے انکے اس حکم کی مکمل پاسداری کیجاتی تھی دلہن کی رخصتی کیلیے ایک مخصوص ڈولی ہوا کرتی تھی بارات کی واپس روانگی و رخصتی کے وقت دلہن کو ڈولی میں لے کر آنے کا منظر دیکھنے کے قابل ہوتا تھا اور دلہن کی رخصتی کا یہ لمحہ نہ صرف خاندان کے لیے بلکہ گاؤں کے ہر فرد کے لیے خاص ہوتا تھا دلہن کو اس کے بھائی قریبی عزیز لکڑی کی بنی ڈولی میں بٹھاتے خوشی کا موقعہ ایک دم غمگین لمحوں میں بدل جاتا دلہن کے والدین بہن بھائی عزیز واقارب سکھیاں سہلیاں کی آنکھوں میں آنسوں بھر آتے اور اس افسردہ ماحول میں دعاؤں اور آنسوؤں کے ساتھ دلہن کوگھر سے رخصت کرتے ڈولی کو والد بھائی رشتہ مل کر اٹھاتے اور بارات واپسی کا سفر شروع کرتی،

جب بارات دلہا کے گھر پہنچتی تو بڑے عزت واحترام سے دلہن کو گھر کے ایک کونے میں گھونگھٹ اوڑھ کر بٹھا دیا جاتا محلے دار خواتین جو کسی وجہ سے بارات میں شریک نہیں ہوتیں وہ دلہن کو دیکھنے پہنچ جاتی اگر دلہن خوبصورت ہو تو اسکے حسن وجمال کے چرچے ہوتے اور اگر خوبصورتی میں کوئی کمی بیشی ہوتی تو تب بھی دیگر خواتین کیساتھ چہ میگوئیاں شروع ہو جاتی بہرحال اس دور کی شادیاں بڑی دیرپا اور کامیاب ثابت ہوا کرتی تھی جنکی مضبوطی کی بنا پر ایک وسیع خاندان کی مضبوطی بنیادوں میں تشکیل ہوتی اقتدار،دولت یا انسان کو عظیم نہیں بناتا بلکہ اصل عظمت سوچ،کردار اور احساس کی ہوتی ہے جو پرانے وقتوں کے انسانوں میں بدرجہ اتمم موجود تھی تاہم آج مال و دولت کی ہوس اور دنیاوی آسائشوں کے لبادے میں مزین ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو شادی کے بندھن میں باندھے رشتوں میں دراڑیں ڈال کر انہیں زوال کا شکار کر دیتے جسکی بنا پر ہنسے بستے گھرانے ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج ہمارا معاشرہ اور خاندانی نظام میں پیچیدگیاں سر اٹھانے لگی ہیں جسکی وجہ سے معاشرتی نظام انتشار کا شکار ہے۔