سیکورٹی گارڈزکے مسائل اور محرومیاں

آصف شاہ
پاکستان میں نجی سیکورٹی کا شعبہ روزگار کے وسیع مواقع فراہم کرتا ہے۔ ملک بھر میں لاکھوں افراد اپنی زندگیوں کا سہارا اس پیشے کو بنائے ہوئے ہیں ریٹائرڈ فوجی یا پولیس اہلکار جب یہ پیشہ اختیار کرتے ہیں تو ان کے لیے حالات نسبتاً بہتر ہوتے ہیں۔ پنشن، میڈیکل اور دیگر سہولتوں کی بدولت وہ کم تنخواہ پر بھی گزارہ کر لیتے ہیں۔ لیکن ایک عام نوجوان کے لیے یہ نوکری ایک ایسے جال سے کم نہیں جس میں داخل ہونے کے بعد ترقی کا کوئی راستہ باقی نہیں رہتا اور نوجوان کولھو کا بیل بن جاتا ہے زندگی کے بہترین سال ایک ایسی ملازمت میں کھپ جاتے ہیں جہاں اجرت قلیل، ڈیوٹیاں طویل اور مواقع محدود ہیں یوں تو سیکورٹی گارڈز کے لیے مسائل ہی مسائل ہیں لیکن سب سے زیادہ جس مسئلے کا سامنا ہے وہ کم تنخواہ اور غیر انسانی اوقاتِ کار ہیں 20ہزار سے 30ہزار روپے ماہانہ پر بارہ گھنٹے مسلسل پہرہ دینا معمول ہے۔ اوور ٹائم کی ادائیگی اکثر کاغذوں تک محدود رہتی ہے۔

زیادہ تر گارڈز کے پاس میڈیکل، بیمہ یا حفاظتی سہولتیں موجود نہیں ہوتیں۔ ان کے کام کو عموماً کمتر سمجھا جاتا ہے اور یہ رویہ ان کی عزت نفس کو مجروح کرتا ہے سیکورٹی کمپنیوں کی پالیسیوں میں منظم استحصال نمایاں ہے۔ کنٹریکٹ کی آڑ میں ملازمین کو ”انڈیپنڈنٹ کنٹریکٹر“ ظاہر کر کے انہیں سوشل سیکیورٹی اور دیگر قانونی تحفظات سے محروم کر دیا جاتا ہے کئی ادارے بروقت تنخواہیں ادا نہیں کرتے، ناجائز کٹوتیاں معمول ہیں، اور بعض اوقات حفاظتی سامان تک معیاری فراہم نہیں کیا جاتا۔ بیماری یا چھٹی کی صورت میں تنخواہ روک لینا بھی عام ہے۔

بعض گارڈز کو کھانے کے لیے اپنی جیب سے خرچ اٹھانا پڑتا ہے جو سراسر انسانی وقار کے خلاف ہے سیکورٹی گارڈ زکا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس میں کیریئر پاتھ موجود نہیں۔ جو ایک بار گارڈ لگ جائے وہ برسوں وہیں کا وہیں رہتا ہے۔ نہ پروموشن‘ نہ ترقی‘ نہ ہی ہنر سیکھنے کے مواقع۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ نوجوان اپنی زندگی کا قیمتی وقت ایک ایسی راہ پر ضائع کر دیتے ہیں جس کا انجام غربت اور مایوسی کے سوا کچھ نہیں۔ اس کے برعکس اگر یہی نوجوان الیکٹریشن، ڈرائیونگ، موبائل ریپئرنگ یا کمپیوٹر بی سکس جیسے ہنر سیکھ لیں تو بہتر مستقبل بنا سکتے ہیں۔ تاریخ ایسے لوگوں کی مثالوں سے بھری پڑی ہے جنہوں نے چھوٹے ہنر سے آغاز کر کے بڑے کاروبار قائم کیے اس صورتحال کو بدلا کیسے جائےسب سے پہلے سیکورٹی گارڈز کو اپنے حقوق سے آگاہ ہونا ہوگا۔ معاہدے، تنخواہ سلپس اور دیگر ثبوت محفوظ کرنا ضروری ہے تاکہ کسی بھی زیادتی کی صورت میں قانونی چارہ جوئی ممکن ہو۔

لیبر آفسز، مزدور تنظیموں اور این جی اوز سے رابطہ استحصال روکنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے دوسری طرف حکومت وقت کو بھی تنخواہ کی بڑہوتری کا اعلان کرنا ہی کافی نہیں ہوگا بلکہ اس اعلان پر پہرا بھی دینا ہوگا بدقسمتی سے حکومت اعلان تو کردیتی ہے لیکن عمل درآمد نداردگارڈ کو چاہیے میڈیا اور سوشل پلیٹ فارمز کے ذریعے کمپنیوں کی غلط روش کو بے نقاب کیا جائے اس سے سیکورٹی گارڈ پر عوامی دباؤ بڑھتا ہے اور مالکان کو پالیسی بدلنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے دوسری جانب حکومت کو بھی نجی سیکورٹی کمپنیوں پر کڑی نظر رکھنی چاہیے۔

لائسنس کے اجرا سے قبل کم از کم اجرت، معقول اوقات کار، میڈیکل کوریج اور کھانے کی سہولت کو لازمی قرار دینا ضروری ہے۔ لیبر آفسز میں شکایات کی فوری سماعت اور خلاف ورزی پر جرمانے و لائسنس معطلی جیسے اقدامات ہی حقیقی بہتری لا سکتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ان کمپنیوں کے مالکان اتنے بااثر ہیں کہ انہیں کوئی قانون ہاتھ نہیں لگا سکتا یہ پیشہ محض
ایک نوکری نہیں، بلکہ ہزاروں خاندانوں کی روزی کا ذریعہ ہے۔ لیکن اگر حالات جوں کے توں رہے تو آنے والی نسلوں کو زمینیں بھی نہیں ملیں گی اور ہنر بھی نہیں۔ اس لیے وقت کا تقاضا ہے کہ نوجوان محض سیکورٹی گارڈ کی نوکری پر اکتفا نہ کریں بلکہ کوئی ہنر سیکھیں اور اپنی زندگی کے معیار کو بلند کریں۔ محنت اور مہارت کے ساتھ آگے بڑھنے والوں کے لیے کامیابی کی راہیں ہمیشہ کھلی رہتی ہیں، جبکہ استحصال کے خلاف آواز بلند کرنا ان سب کے اجتماعی مستقبل کے تحفظ کے لیے ناگزیر ہے۔