سیٹ ایڈجسمنٹ کا فائدہ تحریک انصاف کو ملے گا

سیاسی اکھاڑے میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا فارمولا، ارض پاک میں دو حریف سیاسی جماعتوں میں ہونے والے سیاسی اتحاد کے نتائج قومی الیکشن میں ہی دیکھنے کو مل سکتے ہیں مسلم لیگ ن و پاکستان پیپلز پارٹی کے اس سیاسی اتحاد کو نہ تو جیالا دل سے قبول کر پا رہا ہے اور نہ ہی ن لیگ کے پارٹی ورکرز۔ کیونکہ دونوں سیاسی جماعتوں کی الیکشن مہم میں ایک دوسرے پر تنقید کرنا شروع سے شامل رہا ہے عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد موجودہ سیاسی حالات و ناقابل فہم سیاسی اتحاد کے نتیجے میں امور ریاست کو چلانے کے لیے حکومت کی تشکیل کر دی گئی ہے موجودہ حکومت کامیاب ہو پائے گی یا کہ ملک میں جلد الیکشن کا انعقاد کا نقارہ بجتا ہے آنے والے دنوں میں سب عیاں ہو جائے گا دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے اتحاد پر جہاں سیاسی پنڈت جیالے کارکن پریشان ہیں وہاں چند قومی اسمبلی کے حلقوں پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے نام سے جو حکمت عملی سامنے لائی گئی ہے اس پر سیاسی حالات پر گہری نظر رکھنے والی علمی ادبی و صحافتی حلقے بھی حیران ہیں ملکی فضاؤں میں جہاں حالیہ سیاسی صورتحال پر بحث جاری ہے وہاں مسلم لیگ ن و پیپلز پارٹی کے درمیان نشستوں پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا اعلان مرکز گفتگو بنا ہوا ہے دونوں سیاسی جماعتیں اپنے اپنے چند سابق و موجودہ ممبران اسمبلی کو دوبارہ اسمبلی میں کیوں لانے کی خواہش مند ہے ووٹ کے حصول کے بغیر؟اہم حلقوں پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا فارمولا سامنے لانے کی وجہ کہیں پاکستان تحریک انصاف کے بڑھتے ہوئے ووٹ بینک کا خوف تو نہیں؟ میری ذاتی رائے کے مطابق سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے فارمولے کا فائدہ مسلم لیگ ن و پیپلز پارٹی کے بجائے پاکستان تحریک انصاف کو مل جائے گا پہلی وجہ تو یہ کہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ والے حلقوں میں دونوں سیاسی جماعتوں کے صوبائی اسمبلی کے امیدواروں کی الیکشن مہم پر کشش نہیں رہے گی جس کا تمام تر فائدہ ان حلقوں سے پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار ان کو مل جائے گا دوسرا یہ کہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا معاہدہ کسی بھی وقت کسی بھی سیاسی پارٹی کی قیادت کی طرف سے توڑنے کا اعلان سامنے آ سکتا ہے ماضی کی روایات کو دیکھتے ہوئے۔سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے تحت پیپلز پارٹی نے بھی جو پایا وہ تو فوری ظاہر کر دیا ہے مگر مسلم لیگ ن کی طرف سے اس بے ربط معاہدے کی تمام شرائط سامنے نہیں آئی تاحال سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا فارمولا ان حلقوں سے مسلم لیگ ن یا پیپلز پارٹی کے سابق ممبران اسمبلی بھی توڑ ڈالیں اور آزاد حیثیت سے الیکشن میں کود پڑھیں اگر آپ گوجر خان کو دیکھیں تو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے فارمولے کی زد میں آنے والے سابق ممبران و امیدوار قومی اسمبلی راجہ جاوید اخلاص‘چوہدری خورشید زمان‘راجہ شوکت عزیز بھٹی پارٹی فیصلوں پر عمل کر کے اپنی سیاسی زندگیوں کا خاتمہ کر پائیں گے؟ راجہ پرویز اشرف قومی الیکشن میں ووٹنگ کی صورت میں کامیاب امیدوار دکھائی دے رہے ہیں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے تحت الیکشن لڑ کر وہ اپنا ووٹ بینک اپنے ہی ہاتھوں سے تباہ کر ڈالیں گے بلکہ صوبائی حلقے سے الیکشن میں حصہ لینے والے انکے فرزند راجہ خرم پرویز پر بھی اثر پڑھے گا اس سے پہلے کہ دونوں سیاسی جماعتوں کی قیادت سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے فارمولے کو ناقابل عمل قرار دے کر اسے ختم کرنے کا اعلان کریں راجہ پرویز اشرف کو چاہیے کہ وہ فوری ووٹ کی پرچی کے حصول کا نعرہ لگا کر خود کو اس سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے فارمولے سے آزاد کریں موجودہ سیاسی صورت میں پاکستان تحریکِ انصاف کا ووٹ بینک پر اثر ہوتا دکھائی دے رہا ہے گوجر خان سے قومی اسمبلی کی نشست پر پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار چوہدری محمد عظیم اس کا بھرپور فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور گوجر خان کے سیاسی قلعے کو فتح کرنے کی پوزیشن میں آ سکتے ہیں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے فارمولے کے شور و غل کے سبب حلقے کے ووٹرز بھی اپنا ووٹ پول کرنے کے لئے اپنی سوچ کو متعین کر لیں گے جس کا زیادہ فائدہ پاکستان تحریک انصاف کے امیدواروں کو ہو سکتا ہے چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کا لندن دورہ کے اسباب و نتائج چند دنوں کے بعد ظاہر ہونگے بنا سیاسی اتحاد ٹوٹ بھی سکتا ہے۔موجودہ سیاسی صورت حال و بچھی سیاست کی بساط میں میں پیپلز پارٹی کی قیادت کی چالیں مظبوط و گہری ہیں وہ اپنے پیادوں کو وزیر مشیر لگوانے کے بجائے دائمی عہدوں کے حصول کی چال پر کھیل رہیں ہے جس کے نتائج دور رس رہیں گے۔سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا فارمولا ملکی سیاسی فضاؤں میں کامیاب ہوتا دکھائی نہیں دے رہا گوجر خان سے مسلم لیگ ن کے عہدیدار ضیافت چوہدری نے پارٹی ٹکٹ کے بجائے میاں نواز شریف کی تصویر کے ساتھ الیکشن لڑنے کا اعلان بھی کر دیا اس بات کا اشارہ کر رہا ہے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا فارمولا قومی الیکشن مہم کے شور میں کہیں دب جائے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں