سینٹ انتخابات،اپنے ہی ساتھیوں پرعدم اعتماد کیوں؟

ضیاء الرحمن ضیاء/انتخابی سیاست کی ایک بہت بڑی خامی یہ ہے کہ اس میں پیسے کا بے دریغ استعمال ہوتا ہے اور انتخابات سے قبل امیدوار پیسے کے بل بوتے پر انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں اور پانی کی طرح پیسہ بہایا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں ایک بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ ہماری سیاست پر چند امیر کبیر خاندانوں کا راج ہے، جن کے پاس پیسے کی فراوانی ہے وہ کسی بھی ضرورت کے لیے کہیں بھی پیسہ لگا سکتے ہیں۔ یہ تاجروں کے خاندان ہیں جو سیاست کو بھی تجارت ہی سمجھتے ہیں اور انتخابات سے قبل خوب پیسے کا ضیاع کرتے ہیں اور اسے سرمایہ کاری سمجھتے ہیں اور انتخابات میں کامیابی کے بعد اصل سرمائے کے ساتھ ساتھ خوب منافع بھی کماتے ہیں اور یہ سب سرکاری خزانے سے عوام کا روپیہ ہوتا ہے جسے وہ منافع کے طور پر بٹورتے ہیں۔ ہمارے عوام بھی تو انتہائی سادے ہیں جو ہر چمکتی چیز کو سونا سمجھ بیٹھتے ہیں اور بعد میں نہ سونا ملتا ہے اور نہ ہی اس کی چمک باقی رہتی ہے۔ یعنی پیسے کے بل بوتے پر جو شخص بڑے بڑے جلسے کرتا ہے، انتخابات سے قبل خوب تشہیر کرتا ہے کوئی کھمبا ایسا نہیں ہوتا جس پر اس کا اشتہار نہ لٹک رہا ہو، ہر گلی اور چوک و چوراہے میں بڑے بڑے بینرز آویزاں ہوتے ہیں، وہ عوام سے وعدے کرتا پھرتا ہے اور کہیں کہیں کسی محلے میں کوئی گلی یا نالی بھی بنوا دیتا ہے تو عوام خوش ہو جاتے ہیں اور اسے ووٹ دے دیتے ہیں اس بات سے صرف نظر کرتے ہوئے کہ وہ حکمرانی کے لیے اہل بھی ہے یا نہیں۔ پھر نتیجہ وہی ہوتا ہے جو ہمارے سامنے ہے، نتائج پر زیادہ گفتگو کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہ ہم سب بھگت رہے ہیں۔ یہ تو ہوا عوامی یا نچلی سطح پر روپیہ خرچ کر کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا، ایک اعلیٰ سطح بھی ہے جہاں امیر کبیر لوگوں کو پیسے دے کر ان کا ووٹ خریدا جاتا ہے، وہ اعلیٰ سطح قومی و صوبائی اسمبلیاں ہیں، جہاں مختلف اوقات میں ہونے والے وہ انتخابات جہاں عوام کی بجائے اراکین اسمبلی نے ووٹ دینے ہوتے ہیں، ان میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کو بھاری رقوم دے کر ان کا ووٹ خریدا جاتا ہے۔ جیسے قومی اسمبلی کے سپیکر و ڈپٹی سپیکر کا انتخاب اور سینیٹ کے چیئرمین و ڈپٹی چیئر مین کا انتخاب وغیرہ جن میں عوام کی بجائے اراکین اسمبلی ووٹ دیتے ہیں۔ اسی طرح سینیٹ کے انتخابات میں جب سینیٹرز کو منتخب کیا جاتا ہے وہاں ووٹوں کی بہت زیادہ خرید و فروخت ہوتی ہے۔ ووٹوں کی خرید و فروخت کی روایت ہمارے ملک میں بہت قدیم ہے اور ہمیشہ اراکین اسمبلی ووٹ خریدتے اور فروخت کرتے ہیں جس کی وجہ سے ملک میں ہمیشہ اہل لوگوں کی بجائے پیسے والے نااہل حکومت کرتے رہے ہیں۔ ووٹوں کی خرید و فروخت کا مکروہ دھندے میں تمام سیاسی جماعتیں ملوث ہیں۔ تحریک انصاف کی موجودہ حکومت نے اسے ختم کرنے کے لیے اقدامات کرنے کی کوشش تو کی ہے لیکن وہ تا دم تحریر اس میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ انہوں نے اس کے لیے اوپن بیلٹنگ کا طریقہ کار متعارف کرانے کی کوشش کی ہے لیکن اس کے لیے آئین میں ترمیم ضروری ہے جس کے لیے دو تہائی کی اکثریت درکار ہے جو کہ تحریک انصاف کی حکومت کے پاس موجود نہیں ہے جبکہ تمام اپوزیشن جماعتیں اس سلسلے میں اس کا ساتھ دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ حکومت نے صدارتی آرڈننس کے ذریعے اس قانون کو نافذ کرنے کی کوشش کی لیکن اس کی بھی مخالفت ہو رہی ہے۔ بہر حال اوپن رائے شماری اس مسئلے کا حل نہیں ہے اور نہ ہی یہ مناسب اقدام ہے اس لیے کہ ہر شخص کو یہ آزادی حاصل ہوتی ہے کہ وہ اپنے من پسندامید وار کو ووٹ دے، اسے کسی مخصوص امیدوار کو ووٹ دینے کے لیے پابند نہیں کیا جا سکتا۔ اگر اراکین کو اس با ت کا پابند بنا دیا جائے کہ وہ اپنی پارٹی کے امیدوار کو ہی ووٹ دیں تو پھر انتخابات کا کیا مقصد ہے؟ پھر تو ویسے ہی تمام اراکین اسمبلی کا شمار کر لیا جائے اور ہر پارٹی کی نمائندگی کے حساب سے اسے نشستیں دے دی جائیں۔ لیکن ووٹنگ کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ کوئی بھی رکن کسی بھی موزوں امیدوار کو ووٹ دے سکتا ہے جو ملک و قوم کے لیے بہتر ثابت ہو۔ لیکن یہاں اوپن ووٹنگ کے ذریعے انہیں پابند کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ وہ اپنی پارٹی کے امیدوار کوئی ہی ووٹ دیں چاہے انہیں پسند ہو یا نہ ہو۔ لیکن پارٹی اراکین کا یہ اہم ترین اخلاقی فریضہ ہے کہ وہ اپنی پارٹی کوئی ہی ووٹ دیں اور اگر انہیں پارٹی کی پالیسیوں یا فیصلوں سے اختلاف ہے تو پھر انہیں پارٹی میں رہنے کا حق نہیں۔ بہر حال انہیں اخلاقی طور پر تو پابند کیا جا سکتا ہے لیکن قانون طور پر اس بات کا پابند نہیں بنایا جا سکتا کہ وہ اپنی مرضی کے خلاف کسی دوسرے امیدوار کو ووٹ ڈالیں۔ کیونکہ آئین میں خفیہ ووٹنگ کا ذکر ہے اور خفیہ ووٹنگ کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ کسی کو معلوم نہ ہو سکے کہ کس شخص نے کس امید وار کو ووٹ دیا تاکہ بعد میں کسی کو کسی پر ملامت کا موقع نہ مل سکے۔ حکومت اب تو اوپن ووٹنگ یا شو آف ہینڈ کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے لیکن یہ بات اسے اس وقت سوچنی چاہیے تھی جب انتخابات میں وہ اپنے مخلص اور دیرینہ کارکنوں کو نظر انداز کر کے دوسری سیاسی جماعتوں کے بھگوڑوں کو صرف اس لیے ٹکٹ دے رہی تھی کہ یہ الیکشن جیتنا جانتے ہیں یا پیسہ لگاسکتے ہیں اور یہ اس بات کو بھی اچھی طرح جانتے تھے کہ یہ دوسری جماعتوں کے نظریات یا ان کی کرپشن و نااہلی کی وجہ سے انہیں چھوڑ کر نہیں آئے بلکہ اس بار ان کے جیتنے کی امید نہیں تھی تو یہ انتخابات میں کامیابی اور عہدوں کے لالچ میں انہیں چھوڑ کر آئے تھے تو جولوگ صرف عہدوں اور پیسوں کے لالچ میں آپ کے پاس آئے تو کیا وہ آپ کے ساتھ مخلص ہو سکتے ہیں؟ وہ تو یہاں بھی پیسہ بنائیں گے چاہے اس کے لیے انہیں جو رستہ بھی اختیار کرنا پڑے۔ تو سینٹ انتخابات میں بھی جب انہیں جیبیں بھرنے کا بھرپور موقع ملے گا تو کیا وہ اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھائیں گے؟ کاش! آپ نے یہ سب باتیں ٹکٹوں کی تقسیم کے وقت سوچی ہوتیں اور اپنے مخلص کارکنوں کو نظر انداز کر کے لالچی بھگوڑوں کو ٹکٹ نہ دیے ہوتے تو آج آپ مطمئن ہوتے کہ یہ ہمارے دیرینہ مخلص ساتھی کبھی کسی دوسری جماعت کے امیدوار کو ووٹ نہیں دیں گے۔ اس طرح آپ کو اوپن بیلٹنگ اور شو آف ہینڈ وغیرہ جیسی مضحکہ خیز قانون سازی کے لیے یوں ایڑی چوٹی کا زور نہ لگانا پڑتا۔ اب جانے دیجیے، قوم کا وقت مت برباد کیجیے، ان فضول قسم کی قانون سازیوں کی طرف تمام تر حکومتی مشینری کو لگانے کی بجائے عوام کے مسائل حل کرنے پر توجہ دیجیے تاکہ آئندہ انتخابات میں آپ کو کامیابی کا پورا یقین ہو اور آپ بے فکری سے جیتنے والے گھوڑوں کی بجائے پرانے کارکنوں کو ووٹ دیں جن پر آپ کو پورا بھروسہ ہواکہ یہ ہر حال میں آپ کو ہی ووٹ دیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں