سیلاب سے بچاؤ کیلئے اقدامات کرنے ہونگے

گلوبل وارمنگ موسمیاتی تغیر اور خطے کی آب و ہوا میں تبدیلی کے باعث ماہرین کے مطابق بارشوں کی شدت میں اضافہ اور سیلاب کے خطرات بڑھتے جارہے ہیں اب ایک مرتبہ پھر ان ہی موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث شدید بارشوں اور بڑے پیمانے پر سیلاب نے تباہی مچا دی ہے مزید یہ کہ بھارت کی جانب سے اچانک پانی چھوڑے جانے پر سیلاب کے پھیلاؤ میں مزید اضافے ہو گیا اتنے زیادہ نقصان سے بچا جا سکتا تھا کیونکہ حد سے زیادہ بارشوں اور سیلابی صورتحال کے بارے میں متعلقہ ادارے بار بار تنبیہ کرتے رہے لیکن ہماری مینجمنٹ ٹس سے مس نہ ہوئی ابھی تک بھی سوئی ہوئی ہے جو فلاحی ادارے کام کر رہے ہیں ان کو کوئی محکمہ کوآرڈینیٹ نہیں کر رہا کہ سامان کہاں اور کیسے تقسیم کیا جائے اگر انہیں ہے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق حالیہ سیلاب سے (بلوچستان کے بتیس سندھ کے تائیس کے پی کے کے سترہ گلگت بلتستان کے چھ اور پنجاب کے تین اضلاع) مجموعی طور پر اکیاسی اضلاع کی چھ ھزار چھ سو اکیاون یونین کونسلیں متاثر ھوئی ہیں 1325افراد کی اموات واقع ہوئی ہیں تقریباً ساڑھے تین کروڑ لوگ متاثر ہوئے ہیں سولہ لاکھ اٹھاسی ہزار کے لگ بھگ گھر تباہ وبرباد ہو گے ہیں آٹھ لاکھ کے قریب مال مویشی ہلاک ہو گئے ہیں زرعی زمین کا پینتالیس فی صد حصہ تباہ و برباد ہو گیا ہے 25 لاکھ ایکٹر پر کھڑی فصلیں سیلاب کی نظر ہو گئی ہیں اگر بر وقت انتظام و انصرام نہ کیا گیا تو غذائی قلت کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے یا ان کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافی بھی ممکن ہے ان سب چیزوں سے بچنے کے لیے ابھی اقدامات کرنے ہوں گے دو سو چھیالیس رابطہ پل پانچ ہزار سات سو پینتیس کلومیٹر سڑکوں کو شدید نقصان پہنچا ہے ساتھ ساتھ ریلوے لائن کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے ہماری طرح مصر میں دریائے نیل میں ہر سال سیلاب آ جایا کرتا تھا جمال عبدالناصر نے سوویت یونین کی مدد سے عظیم الشان ”اسوان ڈیم ”اپنے ملک و قوم کو دیا چین میں دریائے یانگزے ہر سال بربادی کی داستان رقم کرتا تھا چین نے” تھری گورجز ڈیم” کے ذریعے اسے کنٹرول کیا(یہ ڈیم چین کے صوبہ ہوئبی میں واقع ہے صرف یہ ڈیم 22500 میگاواٹ بجلی پیداوار کی صلاحیت رکھتا ہے یہ دنیا کا سب سے بڑا بجلی گھر ہے) آج لاکھوں کیوبیک فٹ بارشی پانی پورے ملک میں تباہی و بربادی مچاتے ھوئے اربوں روپے کا معاشی نقصان کرتے ہوئے سمندر کی نظر ہو کر ضائع ہو جاتا ہے اگر آج ہم بھی چین انڈیا جاپان کی طرح ڈیم بنا کر اس بارشی پانی کو محفوظ کرنے کی صلاحیت حاصل کر لیں تو دیگر فوائد کے ساتھ ساتھ بھارت بھی آئندہ کبھی ہماری جانب پانی نہ چھوڑے کیونکہ باصلاحیت ہونے کے بعد یہی پانی جو ہماری تباہی کا سبب بنتا ہے وہ ہماری خوشحالی کا باعث بن جائے گا ہمارے لیے بیش قیمت ہو جائے گا ہماری زرعی ترقی اور بالخصوص توانائی کے بحران کے خاتمے بجلی کی پیداوار میں اضافے اور دیگر زرعی و تجارتی ترقی کا باعث بن جائے گا اور زندگی کی رنگا رنگی پیدا کرنے اور حیات نو بخشنے والی یہ صورتحال بھارت کو کبھی گوارہ نہ ہو گی آئیے ذرہ جائزہ لیتے ہیں کہ ہمارے پڑوسی ممالک نے سیلاب اور اس کی تباہ کاریوں کو کیسے روکا اور اسی سیلابی پانی کو اپنی طاقت اور قوت میں کیسے بدل لیا ہمارا پڑوسی ملک چین ہے جو دنیا میں سب سے زیادہ ڈیم بنانے والا ملک ہے اگر اس کے صرف بڑے ڈیموں کی تعداد دیکھی جائے تو وہ تائیس ہزار آٹھ سو ہے اور اگر چھوٹے ڈیموں کو بھی شامل کیا جائے تو وہ تعداد ستاسی ہزار بنتی ہے اس پانی
کے بل بوتے پر چین اکثر زرعی اجناس دنیا میں سب سے زیادہ پیدا کرنے والا ملک ہے اور توانائی میں بھی خود کفیل ہے دنیا میں تیسرے نمبر پر ہمارا پڑوسی ملک انڈیا آتا ہے جس کے پاس بڑے ڈیموں کی تعداد باون سو اور چھوٹوں ڈیموں کو ملا کر نوہزار بنتی ہے ایتھوپیا جیسا غریب ملک بھی اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ اگر ہم نے ترقی کرنی ہے تو پانی کو ہتھیار بنانا پڑے گا اسی لیے اس نے سوڈان کے بارڈر کے قریب دریائے نیل پر ایک ڈیم بنا رہا ہے جو اسکی انرجی کی تمام ضروریات سے زائد بجلی پیدا کرئے گا اس کی آبادی نو کروڑ ہے اور اس وقت اس کی پینسٹھ فیصد آبادی کے پاس بجلی نہیں ہے یہی ڈیم اس کی زراعت میں انقلاب برپا کر دے گا پاکستان دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام رکھنے والا ملک ہے لیکن پانی کی کمی کے باعث اس سے پورا پورا فاٗدہ نہیں اٹھایا جا رہا یہ صرف اپنوں کی نااہلیوں کے باعث ہے ہم ابھی تک ایک قوم ہی نہیں بنے ہم نسلوں گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں قوم بعض اوقات مشکل فیصلے کرتی ہے لیکن ہم آسان بھی نہیں کرتے اس وقت پاکستان میں چھوٹے بڑے ڈیموں کو ملا کر ان کی تعداد صرف اور صرف 165 بنتی ہے دو بڑے ڈیم منگلہ ڈیم اور تربیلا ڈیم بترتیب 1962 اور 1968 میں بننا شروع ہوئے حب ڈیم کراچی سندھ وہ بھی 1963 میں بننا شروع ہوا راول ڈیم بھی 1962 میں بنا گومل زام ڈیم 2001 میں شروع ہوا اور 2011 میں مکمل ہوا میرانی ڈیم کی تعمیر 2002میں شروع ہوئی اور 2006 میں مکمل ہوا نئے ڈیموں کی تعمیر ہماری معیشت و زراعت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کے مترادف ہے کیونکہ پانی کے محفوظ ذخائر کی بدولت ہم نہ صرف زرعی خود کفالت حاصل کر سکتے ہیں بلکہ سستی انرجی کی ضروریات میں خود کفیل ہو کر مہنگی بجلی سے جان چھڑا سکتے ہیں سیلاب کی روک تھام میں جہاں ڈیم اہم کردار ادا کرتے ہیں وہیں اگر ہم دریاؤں کے پشتے پختہ تعمیر کر کے اور سالانہ بنیادوں پردریاؤں کو گہرا کر کے اور نہروں اور نالوں کی صفائی کے ذریعے سیلاب کے پھیلاؤ کو کم کر سکتے ہیں نوے کی دھائی تک ہر سال ان کی صفائی ہوتی تھی لیکن اب ہم نے وہ کام چھوڑ دیا ہے اسی لیے سیلاب کی تباہ کاریاں بڑھ گئی ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ جو بھی حکومت آئے وہ تمام مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپوزیشن کو ساتھ ملا کر جنگی بنیادوں پر نئے ڈیم کی تعمیر کا آغاز کرے ان ڈیموں کی فزبیلٹیوں کو چھوڑ دے جن پر تنازعہ ہے نئی سائٹس تلاش کی جائیں جہاں کم وقت اور کم لاگت پر چھوٹے بڑے ڈیم بن سکیں تب ہی ہم اس سیلاب اور انرجی کی کمی اور زراعت کے لیے پانی کی کمی سے نجات حاصل کریں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں