سیلاب زدگان اور منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن

خوشی اور غم دو ایسی کیفیات ہیں جو انسانی زندگی کا لازمی حصہ ہیں کوئی شخص امیر ہو یا غریب صالح ہو یا گناہگار اس چیز کا انکار نہیں کر سکتا کہ میری زندگی میں صرف ایک ہی کیفیت وارد ہوئی ہے دوسری کیفیت سے میں نابلد ہوں مجھے اس کے اثرات و مضمرات سے آگاہی نہیں یہ دونوں کیفیات آپس میں لازم و ملزوم ہیں ایک کے بعد دوسری کا آنا لازم ہے چاہے لمبے یا تھوڑے عرصے کے لیے ہی آئے غم میں یہ خصوصیت ہے کہ اکثر اوقات اجتماعی طور پر وارد ہوتا ہے جیسے خاندان میں کسی کا اس دنیا سے رخت سفر باندھ جانا اس سے پورا خاندان متاثر ہوتا ہے اور بعض اوقات تو پوری قوم ہی دکھ اور تکلیف میں مبتلا ہو جاتی ہے جیسے قدرتی آفات کا آنا پاکستانی قوم اجتماعی طور پر بھوک افلاس غربت مہنگائی بیروزگاری کے دکھ میں اپنے نالائق لالچی کرپٹ حکمرانوں کی وجہ سے عرصہ دراز سے مبتلاء ہے لیکن پچھلے سترہ سالوں میں اس عظیم قوم پر تین دفعہ انتھائی تکلیف دہ کرب ناک کٹھن وقت آیا ہے دو ہزار پانچ کا زلزلہ پھر دو ہزار دس کا سیلاب اور اب حالیہ سیلاب جس نے پوری قوم کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے لیکن ہر دفعہ غیور عوام نے اپنے متاثرین بھائیوں کی حتی المقدور کوشش کی ہے اب اس امداد کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے اس لیے دل کھول کر مدد کرنا پڑے گی تب کہیں جا کر متاثرین سنبھل سکیں گے ہمیں چاہیے کہ بڑھ چڑھ کر اپنی استعداد کے مطابق ان متاثرین کی امداد کریں لیکن ایک بات ذہین میں ضرور رکھیں کہ مددہمیشہ ان افراد یا تنظیمات کے ذریعے کریں جن کا پورے ملک میں ویلفیئر کا سیٹ اپ موجود ہے ایک تو وہ پورے ملک سے امداد جمع کر کے وہ اشیاء ان علاقوں تک پہنچاتے ہیں جن کی وہاں ضرورت ہوتی ہے وہ غیر ضروری اشیاء پر رقوم ضائع نہیں کرتے وہ لوگ بغیر تحقیق کے غیر مستحق افراد پر پیسے ضائع نہیں کرتے وہ صرف اور صرف مستحق افراد تک ہی اپنی امداد پہنچاتے ہیں متاثرہ علاقوں میں ان کی جماعت کے کیمپ موجود ہوتے ہیں جہاں وہ اپنی نگرانی میں مطلوبہ اشیاء متاثرین کو بہم پہنچاتے ہیں اس لیے راہ چلتے افراد کو مت اپنی رقوم جمع کروائیں گورنمنٹ کو بھی چاہیے کہ ان ہی تنظیمات کو اجازت دے جو سارا سال کام کرتی ہیں جیسے ایدھی فاؤنڈیشن، الخدمت فاؤنڈیشن، فلاح انسانیت فاؤنڈیشن،منہاج القرآن ویلفیئر فاؤنڈیشن وغیرہ میں منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کلر سیداں کے نوجوانوں کے کام سے بہت متاثر ہوا ہوں جو اس مادہ پرستی نمود و نمائش کے دور میں بھی خاموشی کے ساتھ فلاح انسانیت کے کاموں میں مصروف عمل ہیں انہیں اس کی قطعاً خواہش نہیں کہ ان کے کام اور نام کی تصاویر میڈیا پر گردش کریں اور ان کو شہرہ ملے لوگ ان کو بڑا مسیحا سمجھیں وہ زکوٰۃ و صدقات کے ساتھ ساتھ چرمھائے قربانی کی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں جتنی یہ مہم آسان ہوتی ہے اتنی ہی مشکل بھی کیونکہ اس مہم میں عید کی خوشی قربان کرنی پڑتی ہے لوگ دور دراز سے عید منانے اپنے گھروں کو آتے ہیں اور یہ نوجوان عید کی ساری خوشیاں اہل خانہ و دوست احباب کے ساتھ منانے کے بجائے دکھی انسانیت کی خدمت کے لیے خون سے لتھڑی ہوئی کھالیں اکٹھی کر رہے ہوتے ہیں وہ اپنی خوشیوں، لباس اور انا کی پرواہ کیے بغیر زیادہ سے زیادہ کھالیں اکٹھی کرنے کی تگ و دو میں ہوتے ہیں کیونکہ جتنی کھالیں زیادہ اتنی خدمت خلق زیادہ ہو سکے گی یہ نوجوان اب تک درپردہ تقریباً دس لاکھ روپے سے زائد کی مقامی سطح پر غرباء و مساکین کی خدمت کر چکے ہیں جس میں رمضان پیکیج، عیدگفٹ، یتیم بچیوں کے لیے جہیز، بیماروں کا علاج وغیرہ شامل ہیں علاوہ ازیں ڈیڑھ لاکھ روپے منھاج ویلفیئر کے مرکزی اکاؤنٹ میں بھیج دیا ہے فری میڈیکل کیمپ بھی لگا چکے ہیں جس پر تقریباً ستر ہزار اخراجات آئے تھے اس کے علاوہ جب بھی ملک پر کوئی آفت آئی تو یہ قوم کی مدد کے لیے ہراول دستہ بنے 2005کے زلزلہ میں انہوں نے گاؤں گاؤں جا کر امداد جمع کی اور ایک سوزوکی وین کپڑوں اور کمبل وغیرہ کی مع چالیس ہزار نقد اپنے ضلعی آفس چاندنی چوک راولپنڈی جمع کروائے 2010 کے سیلاب میں ایک ٹرک سامان منہاج خیمہ بستی نوشہرہ پہنچایا گیا اس کے علاوہ چند مخیر حضرات کے ساتھ مل کر سامان اور ایک خطیر رقم نقد جا کر منہاج خیمہ بستیوں میں اپنے ہاتھوں سے ادا کی انہوں نے تمام انتظام و انصرام کو بہت سراہا یہ ساری امداد تقریبا ایک کروڑ اور بیس لاکھ روپے سے زائد تھی 2019 میں کرونا وائرس کا پھیلاؤ حد سے بڑھا تو ہر طرف خوف وہراس پھیل گیا دہاڑی دار افراد گھروں میں قید ہو گئے گزر بسر کے لیے ان کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تو اس وقت بھی یہ نوجوان میدان عمل میں آئے اور ان سفید پوش لوگوں کو کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے سے بچایا مکمل چھان بین کے بعد مستحق افراد کو اشیاء خوردونوش ان کی دہلیز پر پہنچائی گئی جن کی مالیت تقریباً دس لاکھ تھی نہ تصویر نہ تشہیر بلکہ کسی کو کانوں کان خبر بھی نہ ہونے دی تاکہ سفید پوش حضرات کی عزت نفس مجروح نہ ہو اس کے علاؤہ جب روہینگیا کے مسلمانوں پر ظلم وستم کے پھاڑ ڈھائے گئے ان کو گھروں سے بے دخل کر دیا گیا تو کلر سیداں کے ان نوجوانوں نے ایک لاکھ پندرہ ہزار کی رقم ان کی امداد کے لیے منھاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کے مرکز میں بھجوائی جسے مرکزی ڈائریکٹر منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن سید امجد علی شاہ صاحب کی زیر نگرانی بنگلہ دیش میں ان کی عارضی بستیوں میں پہنچائی گئی آج جب قوم پر ایک بار پھر کڑا وقت آیا ہے تو یہ نوجوان پھر میدان عمل میں موجود ہیں انہوں نے کلر سیداں، سرصوبہ شاہ، دوبیرن کلاں اور بھلاکھر میں کیمپ لگائے ہیں جن میں اب تک تقریباً دس لاکھ روپے کی امداد اکٹھی کی جا چکی ہے اس رقم سے ایسی اشیاء ضروریہ خریدیں گئی ہیں جن کی وہاں ضرورت تھی مثلاً کمبل مچھر دانیاں خیمے ترپال کچھ سامان خوردونوش وغیرہ جسے پہلے فیز کے طور پر منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کے زیر انتظام دس شہروں میں قائم کردہ منہاج خیمہ بستیوں میں سے ایک منھاج خیمہ بستی تونسہ شریف پہنچا دی گئی ہے ان متاثرین کی بحالی کے لیے بیشمار وسائل درکار ہیں اس لیے اب اور مستقبل میں اپنے علاقے کے مستحقین کی امداد کے لیے تمام احباب سے گزارش ہے کہ ان نوجوانوں کے ساتھ بھر پور تعاون فرمائیں آپ کی امداد مستحقین تک پہنچنے کی مکمل ضمانت ہے یہ نوجوان سالہاسال سے فی سبیل اللہ خدمات سر انجام دے رہے ہیں اس لیے یہ آپ کی سرپرستی کے زیادہ مستحق ہیں برائے رابطہ سید قاسم شاہ 03435010069 – ملک مناظر 03005111872

اپنا تبصرہ بھیجیں