سیلابی صورتحال محض ایک قدرتی آفت نہیں بلکہ انسانی لالچ اور ادارہ جاتی غفلت کا نتیجہ ہے

جب تک زمین خشک رہی، سب کچھ ”ٹھیک“ نظر آتا رہا، لیکن جیسے ہی قدرت نے اپنی طاقت دکھائی‘ سب کچھ بہتا نظر آیا کوئی ڈوب گیا اور کوئی بے گھر ہو گیا کسی کی فصل تباہ ہوئی کسی کا مکان گرا فطرت کہتی ہے کہ پانی وہیں بہتا ہے جہاں اسے راستہ ملے۔ جب قدرتی راستے بند کیے جائیں، تو پانی پھر اپنا راستہ خود بناتا ہے، اور یہی کچھ راولپنڈی میں ہوا۔


کئی علاقوں میں گھروں میں پانی داخل ہو گیا، گاڑیاں بہہ گئیں، سڑکیں نالوں میں تبدیل ہو گئیں۔ شہری اپنی جان و مال بچاتے رہے اور ادارے بے بسی کی تصویر بنے رہے۔ سوال یہ ہے کہ ان تباہ کن مناظر کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا صرف بارش؟ ہرگز نہیں! اصل ذمہ دار وہ نجی سوسائٹیاں ہیں جنہوں نے فطری ترتیب کو چیلنج کیا، اور وہ ادارے جنہوں نے آنکھیں بند کیے رکھیں راولپنڈی میں موسلا دھار بارش نے جہاں معمولات زندگی درہم برہم کیے، وہیں کئی علاقوں میں سیلابی کیفیت نے تباہی مچا دی۔

دریائے سواں، دریائے لنگ جیسے قدرتی آبی گزرگاہوں کے کنارے اور قرب و جوار میں بسائی گئی نجی ہاؤسنگ سوسائٹیاں اس تباہی کا بڑا سبب بن کر سامنے آئیں۔ گزشتہ چند برسوں سے راولپنڈی کے مضافاتی علاقوں میں نجی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے قیام کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ اڈیالہ روڈ، چکری، چونترہ،روات، سہالہ اور دیگر علاقے اب کنکریٹ کے جنگل بن چکے ہیں۔ مسئلہ یہ نہیں کہ سوسائٹیاں کیوں بن رہی ہیں، مسئلہ یہ ہے کہ وہ کہاں بن رہی ہیں! ندی نالے، برساتی گزرگاہیں، شاملاتی زمینیں، قدرتی جنگلات اور تالاب ہر وہ جگہ جہاں قدرت نے پانی کے بہاؤ کا راستہ رکھا تھا، اسے بیچ کر پلاٹ بنا دیے گئے۔

افسوسناک امر یہ ہے کہ ان سوسائٹیوں کے مالکان بااثر اور اکثر و بیشتر قانون سے بالاتر نظر آتے ہیں۔ نہ انہیں آر ڈی اے کی پرواہ، نہ ضلعی انتظامیہ کی نہ قانون کی اور نہ ہی سرکاری اداروں کی۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب فوری طور پر ہنگامی اقدامات کا اعلان کریں۔ راولپنڈی ڈویلپمنٹ اتھارٹی (RDA) کو متحرک کیا جائے اور غیر قانونی سوسائٹیوں کے خلاف بھرپور کارروائی عمل میں لائی جائے۔ ندی نالوں پر قبضہ کرنے والوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی ہونی چاہیے اور ان زمینوں کو دوبارہ قدرتی بہاؤ کے لیے کھولا جائے۔

یہ بھی وقت ہے کہ ہاؤسنگ سیکٹر کے لیے ایک جامع ماحولیاتی پالیسی ترتیب دی جائے، جس میں ماحولیاتی تجزیے کے بغیر کوئی سوسائٹی منظوری نہ پا سکے۔ ہر منصوبے میں پانی کے بہاؤ، ماحولیاتی اثرات اور مقامی وسائل کو مدِنظر رکھا جائے۔یہ سیلاب محض ایک قدرتی آفت نہیں بلکہ انسانی لالچ اور ادارہ جاتی غفلت کا نتیجہ ہے۔ اگر آج بھی ہم نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو آنے والے دنوں میں ایسے سیلاب معمول بن جائیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں