سید علی گیلانی:شاہین اڑا قیدی پرندوں کو بتا کر

کشمیرکے اعلیٰ اور انتہائی تجربہ کار بزرگ حریت رہنما سید علی شاہ گیلانی 92 سال کی عمر میں طویل علالت کے بعد سرینگر میں انتقال کر گئے۔ وہ مرکزی آواز تھے جنہوں نے بھارتی جابرانہ قوتوں کے سامنے سر نہیں جھکایا اور عمر بھر کشمیریوں کے حق خود ارادیت کا مطالبہ کرتے رہے اور جموں و کشمیر کے مسئلے  پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق آزاد اور غیر جانبدارانہ رائے شماری کے ذریعے کشمیر کی آزادی کی کوششیں کرتے رہے تقسیم سے قبل لاہور میں تعلیم کے دوران وہ تقسیم اور آزادی کے لیے جدوجہد کے لیے قائداعظم محمد علی جناح کے ساتھ منسلک رہے، 1946 میں جموں و کشمیر میں جماعت اسلامی کے قیام کے بعد سے، مولانا سعد الدین، جماعت اسلامی، جموں و کشمیر کے پہلے سربراہ سے سید علی گیلانی گہرے مربوط رہے۔ بعد ازاں لاہور سے ڈگری حاصل کرنے کے بعد جموں و کشمیر واپس آنے پر انہوں نے سرکاری سکول میں بطور استاد شمولیت اختیار کی۔انہوں نے 1959 میں اپنی سرکاری نوکری سے استعفیٰ دے دیا تاکہ وہ پارٹی کی سرگرمیوں میں اپنا پورا وقت لگائیں اور جلد ہی کپواڑہ اور بارہمولہ کے ضلعی سربراہ بن گئے1992 میں، جب آل پارٹیز حریت کانفرنس (اے پی ایچ سی) کشمیر کی حق خودارادیت کی جدوجہد کے لیے کم از کم 30 حامی آزادی جماعتوں کے پلیٹ فارم کے طور پر قائم کی گئی، سید علی شاہ گیلانی نے جماعت اسلامی سے ناراضگی ظاہر کی۔سید علی گیلانی کا پاکستان سے گہرا تعلق تھا لیکن 2006 میں، جب سابق جنرل صدر پرویز مشرف نے بھارت کو اپنا چار نکاتی فارمولا اور جموں و کشمیر ریاست کو بھارت اور پاکستان کے درمیان تقسیم کرنے کی پیشکش کی تو انہوں نے نہ صرف اس کی مخالفت کی بلکہ اس کے مذموم ڈیزائن کے خلاف آواز اٹھائی۔5 اگست 2019 کو، بھارتی حکومت نے اپنے آئین سے آرٹیکل 370 اور 35 A اور دیگر متعلقہ دفعات کو منسوخ کر دیا، ملک کی واحد مسلم اکثریتی ریاست خود مختاری کوختم کر دیا، سید علی گیلانی نے کشمیر میں نوآبادیاتی تبدیلیاں لانے کے بھارت کے منصوبوں کو بے نقاب کیا اور اس کے خلاف بھر پور آواز بلند کی۔

چند ماہ قبل نئی دہلی میں 24 جون 2021 کو ہونے والی کانفرنس پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے، جس میں تمام اہم بھارت نواز کشمیری قیادت نے شرکت کی تھی، سید علی گیلانی نے بالکل واضح کیا کہ بھارت نے ”نام نہاد سیاستدانوں ” سے بات چیت کی اور یہ تاثر دیا کہ صورتحال بھارتی مقبوضہ کشمیر میں معمول پر آ رہی ہے،یہ بالکل غلط ہے۔ بھارتی حکومت نے ہمیشہ کشمیری عوام کے ساتھ دھوکہ کیا ہے۔ لہذا حق خود ارادیت سے کم کوئی دوسرا آپشن قابل قبول نہیں ہے۔ نئی دہلی کو واضح ہونا چاہیے کہ جموں و کشمیر اور لداخ کو کبھی بھی علیحدہ مرکزی علاقے کے طور پر قبول نہیں کیا جائے گا۔ سید علی گیلانی کے دشمن نہ صرف ہندوستانی فوج اور انٹیلی جنس تھے بلکہ کشمیری بھی تھے جنہوں نے اپنا ضمیر بھارتیوں کوفروخت کر دیاتھا۔سید علی گیلانی کئی بار گھر میں نظر بند اور جیلوں میں قید ہوئے، بہت سی صعوبتیں برداشت کیں لیکن انہوں نے کبھی بھارتی ظالموں کے سامنے سر نہیں جھکایا۔ ہر تکلیف کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا لیکن اپنے مؤقف سے پیچھے نہیں ہٹے۔ انہوں نے کشمیریوں میں طلب آزادی کی شمع کو روشن رکھا اور آزادی کی جدو جہد میں کشمیریوں کی تین نسلوں کی رہنمائی کی۔انہوں نے اپنے دیگر نام نہاد کشمیری رہنماؤں کی طرح مؤقف پر کبھی سمجھوتہ نہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں