تحریر: محمدساجدقریشی الہاشمی
اسلام کے تعلق سے اسلام کی نسبت سے ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان ہمارا ہے”، یہ صرف ایک نعرہ نہیں تھا بلکہ یہ اس تحریک کا تسلسل تھا کہ جو 1857 ءمیں بے سروسامانی کے باوجود ہندوستان کے مسلمانوں نے اپنی نشاة ثانیہ کی بحالی کے لیے شروع کی تھی اور جو آگے چل کر ”لے کے رہیں گے پاکستان اور بٹ کے رہے گا ہندوستان” کی شکل اختیار کر کے پورے ہندوستان کے گلی کوچو ں میں گونجنے لگا اور اس کی گونج ریاست جموں و کشمیر میں بھی سنائی دینے لگی لیکن جب ریاست کے مسلمانوں کو ان کے جائز اور قدرتی حق سے محروم کر دیا گیا تو وہ بھی اپنے حق کے لیے میدان عمل میں اتر پڑے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس نعرے نے ”کشمیر بنے گا پاکستان ”کی صورت اختیار کر لی جو آج بھی پوری ریاست جموں و کشمیر کے طول و عرض میں گونج رہا ہے اور پوری دنیا کے امن پسند اور جمہوریت کے راگ الاپنے والوں کو اپنی طرف متوجہ کر کے ان کی ذمہ داریوں اور ان کے وعدوں کی یاددہانی کروا رہا ہے۔
بھارت کے زیرتسلط ریاست جموں و کشمیرمیں جس شخصیت نے بظاہر اپنی نحیف و نزار آواز میں یہ نعرہ بلند کر کے بھارتی ایوانوں کو سراسیمہ کر دیا تھا ان کا اسم گرامی سید علی شاہ گیلانی ہے۔ وہ ایک عہدساز شخصیت تھے جو مقبوضہ ریاست میں پاکستان کے سب سے بڑے حمایتی اور وفادار تھے اور جن کی پاکستان سے وفاداری اور محبت غیرمشروط اور بغیر کسی مصلحت کے استوار تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ” وہ ایک غیور کشمیری ہیں لیکن قومیت کے اعتبار سے وہ پاکستانی ہیں ”۔ وہ کشمیری عوام کے جائز اور تسلیم شدہ حق کے لیے پوری زندگی سرگرم عمل رہے اور انہوں نے اپنی قوم کو اس منزل کے حصول کے لیے الحاق پاکستان کا ایک واضح نظریہ دیا۔ان کا پختہ یقین تھا کہ ریاست جموں و کشمیر کا مستقبل صرف پاکستان کے ساتھ ہی محفوظ رہ سکتا ہے۔
سید علی شاہ گیلانی تشدد کے سخت خلاف تھے اور وہ تحریک حریت کو ان خطوط پر استوار کرنا چاہتے تھے کہ سب سے پہلے اپنی قوم کو تعلیم سے آراستہ کیا جائے اور انہیں پرامن طور پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خودارادیت کی تحریک کے لیے منظم کیاجائے لیکن بھارت کی طرف سے مسلسل وعدہ خلافیوں اور جبر و تشددسے تنگ آ کر جب کشمیری نوجوانوں نے مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کیا تو انہوں نے اس وقت کے بھارتی وزیراعظم چندرشیکھر کو یاد دلایا کہ مہاتما گاندھی پرامن اور نیتاجی سبھاش چندربوس مسلح جدوجہد کے حامی تھے جبکہ ہندوستانی عوام نے پرامن اور مسلح جدوجہد دونوں طریقے اختیار کر کے انگریزوں سے آزادی حاصل کی۔سید علی شاہ گیلانی ابتداءمیں مولانا محمد سعید مسعودی کے نظریے سے متا¿ثر تھے لیکن 1950 ءکے اوائل میں مولانا سید ابوالاعلی مودودی کی تحریروں نے انہیں یکسر بدل کے رکھ دیا جس کا تذکرہ انہوں نے اپنی خودنوشت” وولر کے کنارے” میں بھی کیا ہے۔
سید علی شاہ گیلانی کشمیری عوام کی حق خودارادیت کے لیے سالوں پر محیط مزاحمتی تحریک اور پرعزم جدوجہد کے سرخیل تھے۔ وہ دل کی اتھاہ گہرائیوں سے پاکستان کے ساتھ جڑے ہوئے تھے جسے دنیا کی کوئی طاقت انہیں ان کے ارادے سے ڈگمگا نہ سکی اور اپنی آخری سانس تک وہ اس پر کاربند رہے۔ 5 اگست 2019ءمیں بھارت کی طرف سے ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے اقدام نے
پورے خطے کو غیرمستحکم کر کے رکھ دیا اور چاسال بعد آزمائش کی اس گھڑی میں مقبوضہ ریاست کے در و دیوار ان کی نحیف و نزار آواز میں ہی سہی، ” ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان ہمارا ہے” کا نعرہ دوبارہ سننا چاہتے ہیں لیکن جسمانی طور پر اب وہ موجود نہیں لیکن ان کا یہ ولولہ انگیز نعرہ آج بھی پوری آب وتاب کے ساتھ پورے کشمیر میں گونج رہاہے اور کشمیری نوجوان آج بھی ان کی متعین کردہ راہ پر چل رہے ہیں جس پر وہ اپنی زندگی کی آخری سانس تک بھی متحرک رہے اور بھارتی قابض انتظامیہ ان کے عزم وحوصلے سے اس قدر خائف تھی کہ اس نے انہیں شدید علالت میں بھی ان کے گھر میں علاج معالجے کی سہولت کے بغیر نظربند رکھا حتی ٰ کہ انہوں نے اسی حالت میں اپنی جان جان آفرین کے سپرد کردی۔
سیدعلی شاہ گیلانی ایک شخصیت کا نام نہیں بلکہ ایک تحریک کانام ہے وہ جہد مسلسل اور عمل پیہم اور ایک انقلابِ رواں کا استعارہ تھے۔ اپنے دوٹوک موقف کی وجہ سے وہ ہمیشہ بھارتی انتظامیہ کی آنکھوں میں کھٹکتے رہے اور ان کے غیرمتزلزل یقین کے آگے اس کی تمام کوششیں ماند پڑ گئیں۔ وہ اپنی پیرانہ سالی میں حتی کہ آخری سانس تک اپنے م¶قف پر سختی سے کاربندرہے اور اپنے آخری سانس کو بھی پاکستان کی محبت کی نذر کر دیا گو کہ وہ آج جسمانی طور پر موجود نہیں لیکن ان کے روشن و منور افکار و نظریات اور ان کی طلسماتی شخصیت سے تاریخ حریت ہمیشہ جلا پاتی رہے گی۔ سید علی شاہ گیلانی نے کہا تھا کہ” بھارت اپنی ساری دولت بھی ہمارے قدموں میں ڈال دے اور ہماری سڑکوں پر سونا بھی بچھا دے تب بھی ہم آزادی کے عزم سے پیچھے نہیں ہٹیں گے”۔ سید علی شاہ گیلانی تحریک حریت میں بھرپور کردار اور اس کے لیے ان کی عملی قربانیاں کشمیری قوم کے لیے ایک سنگ میل اور مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ پوری کشمیری قوم سید علی شاہ گیلانی کی بیمثال جدوجہد پر انہیں خراج عقیدت پیش کر رہی ہے اور ان کی چوتھی برسی پر اس کا یہ عہد ہے کہ وہ اپنے عظیم قائد کے دیے ہوئے نظریے سے سرمو بھی انحراف نہیں کرے گی اور اس جدوجہد کواس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک کہ ریاست جموں و کشمیر کے عوام کو ان کا جائز اور قانونی حق نہیں مل جاتا اور پوری ریاست جموں و کشمیر کا الحاق پاکستان سے نہیں ہوجاتا!!!
اک موسم رنگ بہاراں ہے نظرمیں!!!
تاریخ کا ایک عہد درخشاں ہے نظر میں!!!
ہم سنگ در وقت پہ سجدہ نہ کریں گے!!!
مرجائیں گے ایمان کا سودا نہ کریں گے!!!