جبّار مرزا کی کتاب”مزاح نگاروں کا کمانڈر ان چیف: سید ضمیر جعفری“ میرے زیر مطالعہ ہے، یہ کتاب اردو ادب میں ایک قابل قدر اضافہ ہے اس کتاب میں جبار مرزا نے معروف مزاح نگار سید ضمیر جعفری کی شخصیت، فن اور زندگی کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے۔
کتاب کا آغاز اللہ کے بابرکت نام سے کیا گیا ہے اور اس کی اشاعت قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل کے زیرِ اہتمام علامہ عبد الستار عاصم کی نگرانی میں ہوئی ہے۔ 378 صفحات پر مشتمل یہ کتاب رنگین اور سیاہ و سفید تصاویر، خطوط، اور یادگار دستاویزات سے مزین ہے،
جن میں محسن پاکستان ڈاکٹر عبد القدیر خان کا گرامی نامہ بھی شامل ہے۔ کتاب کی قیمت 3000 پاکستانی روپے یا 40 امریکی ڈالر رکھی گئی ہے۔ کتاب کا سرورق محمد مختار علی نے خوبصورتی سے تیار کیا ہے۔
کتاب کے ابتدائیہ میں عرض مصنف کے عنوان سے جبار مرزا لکھتے ہیں ”آپ کا ضمیر ہم سب کا ضمیر قوم کا ضمیر سید ضمیر جعفری، مزاح نگاروں کا کمانڈر انچیف، 372 صفحے کو محیط اس کہانی کا آغاز 1995ء کو تب ہوا
جب ہم ماہنامہ افتخار ایشیاء کے ایڈیٹر تھے اور سید ضمیر جعفری، 1965ء کی حربی یادیں لکھا کرتے۔ 29 برسوں کا گوشوارہ مزاح نگاروں کا کمانڈر انچیف پیش ہے سید احتشام ضمیر چاہتے تھے کہ یہ تبرک جلد تقسیم ہوہم نے اس بھنڈار کو ”شامے“ سے ہی
منسوب و معنون کر دیا ابوالعمار بلال مہدی گاہے گاہے ہم سفر رہے مگر وہ خود اب ہم میں نہ رہے قلم فاؤنڈیشن لاہور کے علامہ عبدالستار
عاصم نے اشاعت کا بیڑہ اْٹھایاکراچی سے ممتاز قلم کار، رد قادیانیت کا حوالہ، مصنف، مورخ اور، افق پبلیکیشنز کے جناب محمد احمد ترازی کی
فنی معاونت اور درود شریف ورلڈ بینک، چک عبد الخالق کے سید حسنات احمد کمال کی راہنمائی مہمیز بنی جناب عطاء الحق قاسمی، بریگیڈئر صولت رضاء معروف ماہر تعلیم جناب ساجد ملک،
پروفیسر ڈاکٹر شاہد اقبال کامران، پروفیسر ڈاکٹر انعام الحق جاوید، ڈاکٹر نجیبہ عارف، ڈاکٹر یوسف عالمگیرین، پروفیسر ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد، محترمہ انیلہ ٹوانہ، ڈاکٹر پونم گوندل اور جناب ندیم رحمان ملک کی مشاورت لائق تحسین رہی۔
آپ سب کا شکریہ!کتاب کا موضوع سید ضمیر جعفری کی ادبی خدمات کے ساتھ ساتھ مزاحیہ ادب میں ان کی خدمات پر مرکوز ہے۔ مصنف جبّار مرزا نے سید ضمیر جعفری کی زندگی اور ان کے کام کو ایک منفرد انداز میں پیش کیا ہے،
جس میں ان کی شخصیت، ادبی سفراور معاشرتی و سماجی مسائل پر ان کے طنزیہ و مزاحیہ خیالات شامل ہیں۔ کتب کے پس ورق میں الطاف حسین قریشی لکھتے ہیں۔
ہمارے محترم دوست جناب جبار مرزا نے اپنی خداداد صلاحیتوں اور بے پایاں شوق صحرا نوردی میں اردو ادب اور صحافت میں بڑا نام پیدا کیا ہے۔ ان کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ اپنے دوستوں اور کرم فرماؤں کی بے حد قدر کرتے اور انہیں یا درکھتے ہیں۔ اس کا زندہ ثبوت وہ عظیم تخلیق ہے
جو انہوں نے مزاح نگاروں کے کمانڈر ان چیف کے عنوان سے ترتیب دی ہے جو ہمارے عہد کے بے بدل شاعر اور ادیب سید ضمیر جعفری کی شخصیت اور ان کے ادبی کا رہائے نمایاں کے بارے میں ہے۔
یہ کتاب سید ضمیر جعفری کی مزاح نگاری کے حوالے سے ان کی تخلیقی بصیرت اور ان کے تجربات کے روشن پہلووں کو سامنے لاتی ہے، اور مصنف نے انہیں ”مزاح نگاروں کا کمانڈر ان چیف“کے لقب سے نوازا ہے۔ پیر و مرشد کے عنوان سے عطا الحق قاسمی رقمطراز ہیں
”جبار مرز ا صاحب ہمارے نظریاتی اور ہم خیال قلم کا ساتھی ہیں نصف صدی کے تعلق میں عقیدت کا یہ عالم کہ ہمیں پیروں اور مرشدوں کا درجہ دیئے ہوئے ہیں جبار مرزا صاحب یادوں کو پرزہ پرزہ سنبھال رکھتے ہیں
اْن کی کئی کتب نظر سے گزریں ایک نئی دنیا پڑھنے کو ملتی ہے۔ مگر مزاح نگاروں کا کمانڈرانچیف سید ضمیر جعفری ہمارا مشتر کہ اثاثہ ہے ہم دونوں کا اپنے پیر و مرشد ضمیر جعفری صاحب پر اتفاق ہے
البتہ صفحہ 238 چیدہ چیدہ میں سید ضمیر جعفری سے جڑے سیٹھ اے ڈی ادیب والے واقعے سے اختلاف میں میری عقیدت کو عمل دخل ہے مزاح نگاروں کا کمانڈر انچیف بہت ہی کمال تحقیق ہے
بعض ایسی باتیں جو کئی مقالہ نگاروں کی بھی نگاہ سے پوشیدہ رہیں جبار مرزا صاحب نے وہ سپرد قلم کر دیں اس کتاب میں ہماری ایک صدی کی ادبی فوجی لسانی اور معاشرتی تاریخ محفوظ ہوگئی ہے۔
کتاب کا اسلوب دلچسپ‘ رواں اور منفرد ہے۔ جبّار مرزا نے سید ضمیر جعفری کی زندگی کے مختلف ادوار کو بہت خوبصورتی سے یکجا کیا ہے۔
ابتدائیہ، تبصرے اور رنگین صفحات کے ساتھ کتاب کو ایک خاص ترتیب سے مزین کیا گیا ہے۔ اس میں عطا الحق قاسمی، پروفیسر ڈاکٹر انعام اللہ حق جاوید، محمد احمد ترازی، ڈاکٹریوسف عالمگیرین، علامہ عبد الستار عاصم، محمد رشید قمر، اور الطاف حسین قریشی جیسے ممتاز ناقدین کے خیالات بھی کتاب میں شامل کیے گئے ہیں،
جو کتاب کو ایک معتبر تحقیقی حیثیت کے طور پر تسلیم کرتے ہیں۔ ڈاکٹر انعام الحق جاوید سید ضمیر جعفری اور کشمیر کے عنوان سے لکھتے ہیں:
جبار مرزا کے کرتوت محققانہ ہیں مگر میں نے کبھی انہیں سکہ بند محقق سمجھا تھا لیکن زیر نظر محققانہ اور تخلیقانہ سلیقے سے ایک ایسی کتاب تحریر ہوئی ہے
کہ میں برادرم جبار مرزا کو مبارک باد پیش کرتا ہوں، مزاح نگاروں کا کمانڈر ان چیف، بڑا صبر آزما، برداشت، حوصلہ اور ثابت قدمی والا کام ہے
جو تین عشروں کے لگ بھگ تکمیل کو پہنچا۔ پیر و مرشد سید ضمیر جعفری سے میری نیازمندانہ رفاقت کا آغاز 1982ء سے ہوا، جب میں اکادمی ادبیات میں ملازم ہو کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے یہاں آگیا،
سید ضمیر جعفری بہت بڑے آدمی تھے اور ان کی بڑائی یہ تھی کہ ہم جیسے بے شمار نوجوانوں کو بھی انہوں نے ہمیشہ اپنے برابر بٹھایا، ان کے ملنے والوں کو دیکھ کے لگتا تھا
کہ وہ بیک وقت تین عمریں جی رہے ہیں، بچے بوڑھے اور جوان بھی انہیں اپنا ہم عصر سمجھتے تھے۔ چٹکی میں لایعنی بات کو با معنی بنا دیتے اور بامعنی کو لا یعنی، ایسا ایسا نکتہ نکالتے اور وہاں بھی نقطہ لگا دیتے تھے
جہاں سرے سے گنجائش ہی نہ ہوتی تھی، خوش خوراکی کا یہ عالم تھا کہ دو پہر کو روٹی کے ساتھ بوٹی کھاتے تھے اور رات کو بوٹی کے ساتھ روٹی، ان کی حب الوطنی ان کی حبالبدنی سے بالا تھی،
مسقط کے مشاعرے میں ایک بھارتی شاعر نے جب کہا کہ ادب کی کوئی سرحد نہیں ہوتی تو سید ضمیر جعفری نے جواب دیا تھا
کہ ادیب کا مگر وطن بھی ہوتا ہے اور سرحد بھی۔سید ضمیر جعفری سر تا پا محبت شفقت اور پاکستان تھے، ہر ذی روح سے عشق کی حد تک انہیں لگاؤ تھا، نہ کسی سے گلہ نہ شکوہ، وہ ایک سنجیدہ شاعر تھے مگر مزاح کی وادی میں پڑے رہے۔ کشمیر کی آزادی ان کا خواب تھا۔
مختلف خطوط، یادداشتیں اور نایاب تصاویر کی شمولیت کتاب کو ایک یادگار حیثیت عطا کرتا ہے۔اس میں سید ضمیر جعفری کی تخلیقی صلاحیتوں کے حوالے سے بھی کئی دلچسپ واقعات
اور حوالہ جات شامل ہیں، جو قاری کو کتاب کے مطالعے میں دلچسپی برقرار رکھنے میں معاون ثابت ہونگے ڈاکٹر یوسف عالمگیرین لکھتے ہیں۔ بقول سید ضمیر جعفری:
پِن کھلا ٹائی کھلی بکلس کھلا کالر کھلا
کھلتے کھلتے ڈیڑھ گھنٹے میں کہیں افسر کھلا
جبار مرزا نے سید ضمیر جعفری کی زندگی کے بہت سے پنہاں رنگ اْجاگر کیے ہیں۔ اس کتاب میں شامل سید ضمیر جعفری کی زندگی کا ہر باب قارئین ادب کے لیے ایک تازہ ہوا
کے جھونکے کی مانند ہے جو انہیں اپنی خوشبو سے معطر کرتا دکھائی دیتا ہے۔ قارئین جبار مرزا کے بھی یقینا ممنون ہوں گے کہ انہوں نے میدان شعر و ادب کو ایک خوبصورت تحفے سے نوازا ہے”
جبّار مرزا کی یہ کتاب سید ضمیر جعفری کی مزاح نگاری پر ایک اہم تحقیق ہے۔ کتاب میں شامل نایاب مواد اور تصاویر قاری کو سید ضمیر جعفری کے فن اور ان کے کام کے ساتھ ایک گہرے ربط میں جوڑ دیتے ہیں۔
کتاب میں ان کے کردار اور فن کی باریکیوں کو نہایت موثر انداز میں اجاگر کیا گیا ہے۔ جبّار مرزا کی تحقیق، ان کا تجزیاتی اسلوب اور مختلف علمی و ادبی شخصیات کے تبصرے اس کتاب کو ایک مکمل تحقیقی و ادبی شاہکار بناتے ہیں۔
محمد احمد ترازی لکھتے ہیں: ضمیر جعفری زندہ رہنے کا ہنر جانتے تھے۔ وہ ادب برائے ادب کی بجائے ادب برائے زندگی کے قائل تھے۔ انہوں نے ہمیشہ فکر و خیال کے نئے پہلو پیش نظر رکھے۔
نئے تجربات متنوع موضوعات اور شگفتہ پیرایہ اظہار ان کے اسلوب کے امتیازی اوصاف ہیں“۔سید ضمیر جعفری کی شخصیت کے نمایاں پہلوؤں کو سامنے لانے کے لیے یہ کتاب نہ صرف ان کے چاہنے والوں بلکہ اردو مزاح نگاری کے طالب علموں کے لیے بھی ایک اہم دستاویز ہے۔
علامہ عبدالستار عاصم سید ضمیر جعفری کو مزاح کا قطب کہہ کر لکھتے ہیں: مزاح معاشرے کا حسن ہوتا ہے آبرو اور وقار ہوتا ہے۔ سید ضمیر جعفر ی اسم بامسمہ تھے وہ معاشرے کا ضمیر تھے
ماحول کو خوشگوار رکھا مزاح کے پردے میں بیداری اور ذمہ داری کی تحریک دی شوق سے لخت جگر، نور نظر پیدا کرو ظالمو! تھوڑی سی گندم بھی مگر پیدا کرومذاق ہی مذاق میں کہنے والی بات کہہ جانا
اور ہنسی خوشی مسائل کی طرف توجہ دلا جانا سید ضمیر جعفری کے کلام کا خاصا ہامزاح نگاروں کا کمانڈر انچیف“ کے مصنف جبار مرزا ادب و تاریخ ثقافت و صحافت شاعری اور کالم نگاری میں معروف تو ہیں
مگر، مزاح نگاروں کے کمانڈر انچیف میں انہوں نے سید ضمیر جعفری سے عقیدت و نیازمندی کی انتہا کر دی ہے بہت سے ایسے گوشے کہ شاید قاری وہاں تک کبھی نہ پہنچ پاتا ہم تشنگانِ مطالعہ پر وا کئے
!یہ ایک لازوال تحقیقی تاریخی اور انسان دوستی کا مرقع ہے جسے قارئین! ثواب کی غرض سے بھی پڑھیں گے کہ یہ ایک انسان دوست اور مزاح کے قطب سید ضمیر جعفری کی کہانی ہے
سید زادے کی کراماتی روداد ہے۔ خانوادہ نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کا کرشماتی تبرک ہیمیں جبار مرزا، علامہ عبد الستار عاصم اور قلم فاونڈیشن انٹرنیشنل کا شکریہ ادا کرتا ہوں
کہ انہوں نے سید ضمیر جعفری جیسے بابائے ظرافت کی شخصیت و فن اتنی اچھی کتاب شائع کی ہے۔ اللہ جعفری صاحب کے درجات بلند کرے آمین۔