118

سید شاہ نقوی البخاریؒ

ملک کے طول وعرض میں یوں تو جابجا مزارات بنے ہوئے ہیں تاہم بہت سی ایسی قبور و مزارات بھی ہیں جن کے بارے کسی کے پاس کوئی مستند معلومات یا شناخت نہیں ہے

تاہم تحصیل کلرسیداں کی یونین کونسل بشندوٹ کے گاؤں اراضی پنڈ میں ایک ایسی ہستی مدفون ہے جنکے حالات زندگی اور شجرے کے بارے میں کافی حد تک معلومات تک رسائی ممکن ہوئی ہے

یعنی سید شاہ نقوی البخاری رحمتہ اللہ علیہ المعروف عبداللہ شاہ محکمہ مال کے ریکارڈ میں انکا نام عبدل شاہ درج ہے

دستیاب معلومات کے مطابق عبدل شاہ رحمتہ اللہ علیہ کے آباؤ اجداد اوچ شریف بہاولپور سے نقل مکانی کرکے مقبوضہ کشمیر سری نگر میں رہائش پذیر ہوئے

اور آپ کی کئی پشتیں وہاں آباد رہیں بعد ازاں آپ سری نگر سے موجودہ آزاد کشمیر کی طرف نقل مکانی کی اور بعد ازاں آپ نے یوسی بشندوٹ کے گاؤں اراضی خاص میں آکر آباد ہوئے

یہاں انہیں آباد ہوئے آج تک تقریباً 300 سو سال کا عرصہ گزر چکا ہے وہ اراضی خاص میں کیسے پہنچے اس حوالے سے کوئی مستند معلومات تک رسائی ممکن نہیں ہو سکی تاہم یہ بات حقیقت کے قریب ترین لگتی ہے کہ چونکہ راجہ جم نادم کی نسل سے ایک راجہ بھٹی تھا جسکی پندرہویں پشت میں ایک راجہ ائیر تھا

جس نے اسلام قبول کیا اور نام آمین رکھا کالوخان اسکا بیٹا تھا جسے کلیال بھٹی قبیلے کا جدامجد مانا جاتا ہے کالوخان 1450 میں جیسلمیر سے آکر پنڈی بھٹیاں اور پھر سوہاوہ آباد ہوا اسی کی مناسبت سے اس جگہ کا نام سوہاوہ کلیال پڑ گیا کالوخان کی آٹھویں پشت نیچے راجہ مراد خان کا نام آتا ہے

جنکے تین بیٹے تھے راجہ پہاڑ خان راجہ نادر خان اور راجہ سوار خان تھے بہادرخان المعروف راجہ پہاڑ خان کی وفات تنگدیو عالماں میں ہوئی اور وہی انکی قبر واقع ہے

جبکہ انکی اولاد جن میں چھ بیٹے تھے میرپور، چکسواری اور گڈیری نقل مکانی کر گئی قرین قیاس ہے کہ رائے مراد خان کا بیٹا راجہ سوار خان نقل مکانی کر کے تحصیل کلرسیداں کے گاؤں اراضی خاص میں آباد ہوئے

چونکہ وہ عبدل شاہ کے عقیدت مند تھے وہ عبدل شاہ کو بھی اپنے ہمراہ اسی گاؤں میں لے آئے اراضی خاص کے رہائشی سید عابد حسین شاہ صاحب جو اب اس دنیا فانی سے کوچ کر چکے ہیں

انہوں نے آج سے 3سال قبل پنڈی پوسٹ سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ جب 1947 میں برصغیر کی تقسیم ہوئی تو اراضی پنڈ میں کافی ہندو گھرانے آباد تھے تو اس وقت ہر
میں رکھ دی تھی انہیں اس بات کا پختہ یقین تھا مسلمان بزرگ ہستی عبداللہ شاہ/عبدل شاہ سے گہری عقیدت رکھتے ہیں

اور کوئی میں انکے مزار سے یہ قیمتی سامان اٹھانے کی جسارت نہیں کرے گاسید عابد حسین شاہ مرحوم کے بقول تین دن تک ہندوؤں کا قیمتی سامان اور عورتوں کے زیوارت عبدل شاہ مزار کے احاطے میں پڑے رہے لیکن کسی نے اس سامان کو ہاتھ تک نہیں لگایا اس مثال سے یہاں کے رہائشیوں کی عبدل شاہ کیساتھ انکی عقیدت مندی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے

کہ وہ اس ہستی کے کس قدر منعقد تھے آج بھی ہرسال جولائی میں انکا عرس منایا جاتا ہے انتہائی سادگی اور پُرامن انداز میں دعائیہ تقریب منعقد ہوتی ہے اور لنگر تقسیم ہوتا ہے

خوش آئند بات یہ ہے کہ عبدل شاہ مزار پر ناچ گانا یا دیگر غیر شرعی رسومات کی ادائیگی سخت ممنوع ہے راقم نے اپنی ٹیم کے ہمراہ عبدل شاہ کے شجرہ نسب کے حوالے سے تحقیق کی ہے جنکے مطابق آپ کا شجرہ نسب درج ذیل ہے

،سید عبدل شاہ عبد اللہ شاہ نقوی البخاری بن سید جہاں شاہ نقوی البخاری بن سید زین العابدین نقوی البخاری بن سید قاسم علی شاہ نقوی البخاری بن سید جنید شاہ نقوی البخاری بن سید مجاذ الدین نقوی البخاری بن سید عبد الکریم نقوی البخاری بن سید باذ دین

نقوی البخاری بن سید دریاؤالدین نقوی البخاری بن سید شہاب الدین نقوی البخاری بن حضرت سید محمود ناصرالدین نقوی البخاری بن حضرت مخدوم جہانیاں گشت نقوی البخاری بن حضرت سید سلطان احمد کبیر نقوی البخاری بن حضرت سید شیر شاہ جلال الدین سرخ پوش نقوی بخاری (اوچ شریف) سے ہوتا ہوا

حضرت علی علیہ السلام سے جا ملتا ہے۔ آپ کے مزار مبارک پر ہر سال اہل علاقہ دعائیہ تقریب کا اہتمام کرتے ہیں۔ اور لنگر حسینی تقسیم کیا جاتا ہے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں