سیاسی مسائل باہمی مشاورت سے حل کیے جائیں

تحریک عدم اعتماد جمع ہونے کے بعد ملکی سیاست میں کافی ہلچل مچی ہوئی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان حصول اقتدار کے لیے رسہ کشی جاری ہے اور یہاں رسہ وہ سیاستدان ہیں جو حکمران جماعت تحریک انصاف کے اتحادی یا تحریک انصاف کے ناراض اراکین اسمبلی ہیں۔ جنہیں اپوزیشن اور حکومت اپنی اپنی طرف کھینچنے کے لیے بھر پور زور لگا رہی ہیں۔ خیر اب تو صورتحال کافی واضح ہو چکی ہے اور جس نے جتنا رسہ کھینچنا تھا تقریباًکھینچ لیا۔ اس کھینچا تانی میں بظاہر اپوزیشن کے ہاتھ کچھ زیادہ ہی رسہ لگا ہے اور حکمران جماعت اس وقت مشکلات کا شکار ہے۔ تحریک عدم اعتماد پر اتوار کے روز ووٹنگ ہو گی، جس کی کامیابی کے امکانات واضح ہیں۔ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد اپوزیشن جماعتیں مل جل کر ایک حکومت بنائیں گی جس کے وزیراعظم کے لیے شہباز شریف کو نامزد کیا گیاہے۔تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد آئین کے مطابق عمران خان وزیراعظم نہیں رہیں گے تو صدر مملکت پارلیمان سے اپنا نیا وزیراعظم منتخب کرنے کا کہیں گے۔ اب اپوزیشن جماعتیں اپنا نیا وزیراعظم منتخب کر لیتی ہیں تو اس کی مدت ایک سے ڈیڑھ سال تک ہو گی۔ موجودہ حالات میں جب ملک تباہ حالی کا شکار ہے تو بظاہر اتنی کم مدت میں اسے مسائل سے نکالنا ممکن نہیں تو نیا وزیراعظم عوام میں نہایت غیر مقبول ہو جائے گا۔ اس لیے زیادہ بہتر یہی ہو گا کہ اپوزیشن جماعتیں اپنے لیے وزیراعظم کا انتخاب نہ کریں تاکہ صدر کو اسمبلی توڑ کر نئے انتخابات کی طرف جانا پڑے یااگر اپوزیشن جماعتیں کچھ انتخابی اصلاحات لانا چاہتی ہیں تو پھر وزیراعظم کا انتخاب کر لیں اور پھر جلد ہی وزیراعظم صدر کواسمبلی توڑنے کا مشورہ دے تاکہ ملک میں نئے انتخابات ہوں اور نئی حکومت پانچ سال کے لیے برسراقتدار آئے۔مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کی رائے کے مطابق وہ ایک قومی حکومت ہو جو ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ ملا کر بنائی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اگر اکثریت میں بھی ہوئے تب بھی تمام جماعتوں کو ساتھ لے کر چلیں گے، یہ بات تو ان کی اچھی اور قابل تعریف ہے لیکن دوسری بات جو انہوں نے کہی وہ کم ظرفی پر دلالت کرتی ہے کہ سوائے تحریک انصاف کے۔ یعنی ملک کی دیگر تو تمام جماعتیں ہمارے ساتھ مل سکتی ہیں لیکن تحریک انصاف نہیں۔ یہ بات کسی طرح درست نہیں ہے کیونکہ قومی حکومت بنانے کے لیے تحریک انصاف کو ساتھ ملانا ضروری ہے ا س لیے کہ تحریک انصاف ایک بڑی اور قومی جماعت ہے اگر اسے ساتھ نہیں ملاتے تو پھر یہ قومی نہیں مخلوط حکومت کہلائے گی۔ اگر تحریک انصاف کے ساتھ سیاسی اختلافات کی وجہ سے انہوں نے ایسا کہا اور ظاہر ہے کہ اسی وجہ سے کہا ہے تو پھر دیگر تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ بھی تو ماضی میں اختلافات رہے ہیں۔ کیا مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان کبھی اختلافات نہیں ہوئے۔ کیا نواز شریف نے پیپلز پارٹی کے خلاف ایک جاندار لانگ مارچ نہیں کیا تھا؟ بلکہ دور جدید کے لانگ مارچوں کی روایت وہیں سے پڑی گو کہ ان کی طرح کوئی بھی اپنی مطالبات اتنی سرعت کے ساتھ نہیں منوا سکا لیکن ان کی دیکھا دیکھی لانگ مارچ تو ہوتے ہیں۔ وہ پیپلز پارٹی کے خلاف ہی تھا۔ اسی طرح ایک دوسرے کے خلاف ”سڑکوں پر گھسیٹنے“ جیسے سخت بیانات بھی دیتے رہے۔ جمعیت علمائے اسلام کے ساتھ بھی ن لیگ کے اسی دور میں اختلافات تھے جب یہ جماعت پیپلز پارٹی کی اتحادی تھی بلکہ اس سے پہلے بھی اختلافات رہے۔ ایم کیو ایم کے ساتھ ن لیگ کے بھی اختلافات رہے ہیں مگر پیپلز پارٹی کے تو شدید اختلافات ہوئے۔ لہٰذا اگر سیاسی اختلافات کو دیکھ کر کسی جماعت کو قومی حکومت سے نکالنا ہو تو
پھر کوئی جماعت بھی اس میں شامل نہیں ہو سکتی۔ یہ الگ بات ہے کہ تحریک انصاف نے جس طرح نفرتیں پیدا کیں اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ جس طرح پی ٹی آئی نے دوسروں کو تنقید، گالم گلوچ اور الزامات کا نشانہ بنایا وہ اپنی مثال آپ ہے۔انہوں نے قانون سازی میں بھی کسی جماعت کو شریک نہیں رکھا کبھی دیگر جماعتوں کو اعتماد میں لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ کئی مواقع پر دباؤ ڈال کر قانون سازی کرلی گئی اور جہاں یہ ممکن نہ ہوا وہاں صدارتی آرڈیننس جاری کر دیے گئے۔ تحریک انصاف کے اس رویے نے مل بیٹھنے اور گفت و شنید کا راستہ ہی بند کر دیا۔ بہر حال اگر انہوں نے ایسا کیا تو ضروری نہیں ہے کہ دیگر جماعتیں بھی ایسا ہی کریں۔ بلکہ آپ اعلیٰ ظرفی کا ثبوت دیتے ہوئے تحریک انصاف سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلیں اور حقیقی معنوں میں ایک قومی حکومت بنائیں اس قومی حکومت میں تمام جماعتوں کو بقدر جثہ ان کا حصہ ملے۔ پھر آئندہ ملک کے تمام مسائل باہمی مشاورت سے حل کیے جائیں۔ جب تمام جماعتوں کو ایسا محسوس ہو گا کہ وہ حکومت کا حصہ ہیں تو پھر کوئی حکومت کو کام کرنے سے نہیں روکے گا۔ ہر ایک اس کے استحکام میں اپنا حصہ ڈالے گا، جوملک میں سیاسی استحکام لائے گا اور سیاسی استحکام سے معاشی استحکام بھی آتا ہے۔ اس سے قبل بھی کئی بار ملک میں قومی حکومتوں کی بات ہوئی لیکن یہ کبھی پوری نہ ہو سکی، اس بار اسے آزما لینا چاہیے۔ یقینا اس کے دور رس نتائج برآمد ہوں گے، ملک میں بے جا سیاسی اختلافات اور تنقید در تنقید کا دروازہ بند ہو جائے گا، تمام سیاسی جماعتیں باہمی مشاورت سے فیصلے کریں گیں یوں ملک ترقی و استحکام کی راہ پر گامزن ہو جائے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں