سیاسی قیادت اور جمہوریت

پروفیسر محمد حسین/اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ جمہوریت بہترین نظام حکومت ہے اس میں عوام اپنے نمائندوں کو خود منتخب کرتے ہیں اور جو بھی جس جماعت کے منشور سے متفق ہوتا ہے اس جماعت کے امیدوار کے حق میں اپنا ووٹ دیتا ہے آزاد امیدوار بھی ہوتے ہیں جو اپنی کارکردگی اور لوگوں کے اعتماد کے بل پر جیت جاتے ہیں لیکن اہم بات یہ ہے کہ جماعتوں کے اندر کتنی جمہوریت ہے کیا کسی جماعت میں صحیح جمہوری طریقہ سے قائدین کا انتخاب ہوتا ہے؟جماعت اسلامی ہی ایک واحد جماعت ہے جس کے امیر اور دیگر رہنماؤں کا انتخاب صحیح طور پر جمہوری طریقہ سے ہوتا ہے کسی جماعت کے منشور کے متعلق تو لوگوں کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ کس جماعت کا کیا منشور ہے چنانچہ ووٹ شخصیات پارٹی نعروں اور وعدوں و دعووں کی بنیاد پر دیا جاتا ہے بعض جگہوں پر ووٹ وڈیرہ‘چوہدری اور جاگیردار کی مرضی والے امیدوار کو دیا جاتا ہے جہاں تک آزاد امیدوار کا تعلق ہے وہ منتخب ہو کر اپنے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس جماعت میں شامل ہو جاتا ہے جہاں اس کو مفاد اور مقام نظر آتا ہے واضح رہے کہ ہماری جمہوریت کا مغربی نظام جمہوریت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے جب جماعتوں کے اندر جمہوریت نہ ہو تو منتخب نمائندوں سے جمہوریت کے مطابق نہ چلنے کا شکوہ کوئی معنی نہیں رکھتا اس بات کا بھی جائزہ لینا ضروری ہے کہ الیکشن کے دوران سیاستدان جتنے وعدے اور دعوے کرتے ہیں ان میں سے کتنے فی صد پر عملدرآمد ہوتا ہے لیکن اس کے باوجودجب دوبارہ الیکشن کا ہنگامہ شروع ہوتا ہے تو وہی مخصوص لوگ پھر عوام پاس بلاجھجک جاتے اور ووٹ مانگتے ہیں وہی عوام ان کو پھولوں کے ہار پہناتے ہیں اور وہ نئے وعدے کر کے پھر ووٹ لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں یہ چکر اسی طرح چلتا رہتا ہے اور عوام کو یہی سبق پڑھایا جاتا ہے کہ جمہوریت بہترین نظام ہے اور بد ترین جمہوریت‘بہترین آمریت سے بہتر ہے عوام کو اب تک نہ جمہوریت کی سمجھ آئی اور نہ ہی وہ اس کے ثمرات سے لطف اندوز ہوئے اور نہ کبھی جمہوریت نظر آئی جہاں تک موجودہ نظام سے کوئی کیا اور کیسے مطمئن ہو سکتا ہے جس میں حصول انصاف مہنگا اور عام آدمی کی طاقت سے باہر ہو جس میں غریب کے مسائل کے نام پر ان ہی غریبوں کے ووٹوں کا سودا کیا جاتا ہو جس میں عام آدمی سرکاری دفترمیں اپنے مسئلہ پر فریاد کرنے کیلئے گھس نہ سکتا ہو جس نظام میں اکثر سرکاری افسر اپنے ماتحت چھوٹے چھوٹے افسروں کو اپنی رعایا سمجھتے ہوئے ان سے ہتک آمیز رویہ رکھتے ہوں جس نظام میں معصوم بچوں اور بچیوں کے ریپ اور قتل کرنے عصمت دری کرنے والوں کو نشان عبرت بنانے کیلئے قانون سازی نہ کی جاتی ہو اور نہ ہی سرعام سزائیں دی جا سکتی ہوں اور جس نظام میں عہدے یا دولت کو ہی سب کچھ سمجھا جاتا ہو اور عہدے اور دولت والا حق پر اور عام اور غریب و کمزور ناحق پر سمجھا جاتا ہو بھلا ایسے نظام سے کون مطمئن ہو سکتا ہے ہمیں ایک ایسے نظام کی ضرورت ہے جس میں حکومت مضبوط ہو کوئی حکمران کو محض اس لئے بلیک میل نہ کر سکے کہ اگر وہ حکومت سے الگ ہو جائے اور حکومت کا ساتھ چھوڑدے تو حکومت گر جائے گی یعنی ایسا نظام جس میں حکومت بنانے کیلئے نہ کسی کی ضرورت ہو نہ اراکین پارلیمنٹ کی خرید و فروخت کی ضرورت ہو جو ان کیلئے بد نامی کا باعث ہوایسا نظام کہ جس میں عام پاکستانی شہری کو بھی انسان سمجھا جائے اور اس کو بنیادی انسانی حقوق مل سکیں اس وقت ہمارے ہاں نہ حقیقی جمہوریت ہے اور نہ ہی آمرانہ نظام ہے اور نہ ہی بادشاہت بلکہ یہ جمہوری نظام کی بگڑی ہوئی شکل ہے اس کی مثال اس درخت کی طرح ہے جس پر نہ پھل لگتا ہے اور نہ ہی اس کا سایہ ہے جس نظام کو آمرانہ یا
فوجی حکومت کہا جاتا ہے اگر اس کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو اس میں عام آدمی کو اس دور میں کوئی تکلیف نہیں تھی موجودہ نظام نہ تو اسلامی ہے اور نہ ہی مغربی جمہوریت اور پھر ہم کہتے ہیں کہ یہاں جمہوریت کو مضبوط نہیں ہونے دیا گیا لیکن جب سے جمہوری دور آیا ہے اس میں عوام کو ملا؟یہ واقعی بد ترین جمہوریت ہے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس سیاستدان ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتے اور ایک دوسرے کو بد نام کرتے ہیں عوام کا پرسان حال کوئی نہیں الزام کسی اور پر لگاتے ہیں کیا اس کو جمہوریت کہتے ہیں؟کیا ہمیں ایسا ہی نظام چاہئے؟کیا یہی نظام بہتر ہے عام آدمی اپنے لئے آسانیاں اور عزت نفس چاہتا ہے معاشی ترقی اور ملکی خوشحالی چاہتا ہے پر امن ماحول چاہتا ہے اور ایک مستحکم حکومت چاہتا ہے جو کہ موجودہ نظام میں نہ ہی نظر آتی ہے اور نہ ہی اس کا کوئی امکان ہے عام آدمی کو اس نام نہاد جمہوریت اورجمہوریت کے نام پر ڈھونگ افراتفری اور معاشی بد حالی سے نجات چائیے نظام صدارتی ہو یا پارلیمانی یا کوئی اور شاید تبدیلی جلد آجائے بلکہ یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ تبدیلی آ نہیں بلکہ آگئی ہے سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ تبدیلی کہاں ہے؟ڈسکہ کے ضمنی انتخاب اور سینٹ انتخابات کے حوالے سے جو باتیں اور انکشافات منظر عام پر آرہے ہیں حقائق اس قد ر دل گرفتہ کر دینے والے ہیں کہ دماغ ششدررہ جاتا ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سیاست‘جمہوریت‘معیشت‘سفارت‘سیاسی اخلاقیات وتعلقات‘جمہوریت کے ارتقاء اور فکری نشوونما کی جگہ سیاستدان میں سیاسی انتشار کی ایک لہر نے سب کچھ الٹ پلٹ اور ملیا میٹ کر دیا اور قوم کو جن اعصاب شکن تجربات‘بیانات اور سیاسی جوڑ توڑ‘پیسے کی ریل پیل اور الزمات کا پنڈوڑاباکس دیکھنے کو ملا ہے وہ حد درجہ وحشت ناک ہے عوام ایک اجتماعی جمہوری بے بسی‘سیاسی کشیدگی‘تعصبات‘تنگ نظری‘الزامات اور سیاسی افراتفری کی دلدل میں پھنسے ہوئے قوم کو جس فکری مرکزیت کی ضرورت ہے اس سے سیاسی قیادت انکاری ہے ہمارے سیاستدان میں رواداری‘ اتفاق رائے‘بصیرت‘سیاسی پختگی‘دوراندیشی‘خیرسگالی اور راست گوئی کا فقدان نظر آرہا ہے ہم آپس میں دست و گریبان ہیں اور صحرا میں کھڑے ہیں ہمارا کوئی سائبان نہیں ہے سوال یہ ہے کہ گراں مایہ اس جمہوری جدوجہد کی حقیقت کیا ہے‘ہر طرف لفظوں کی گولہ باری کب تھمی گی کب ملک میں ہماری نئی نسل کو بے خوفی کا ماحول نصیب ہو گا کب بندوق کو علم کی دہلیز پر جھکنا پڑے گا علم و تہذیب اور فنون و تخلیق‘محبت و انسانیت کو نا انصافی اور ظلم پر کب فوقیت اور بالا دستی ہوگی؟

اپنا تبصرہ بھیجیں