معزز قارئین کرام! اگر آپ کو یاد ہوتو اسسٹنٹ کمشنر حرا رضوان کے تبادلے اور غلام سرور کی تعیناتی کے دوران میں نے ڈائری میں یہ الفاظ تحریر کئے تھے کہ میری تعریف اور تنقید کا معیار کارکردگی ہے اور ہر اسسٹنٹ کمشنر، ڈی ایس پی، ایس ایچ او کے ٹرانسفر کے بعد اس کی مجموعی کارکردگی پہ لکھنا میں قلم کی زکوٰۃ سمجھتا ہوں‘ حرا رضوان نے بہت سارے اچھے کام کئے اور بہت سارے الزامات ان پہ ابھی تک موجود ہیں اور یہ منتخب نمائندوں کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان ہے بعد ازاں اچھی شہرت کے حامل غلام سرور کی تعیناتی پر میرے یہی الفاظ تھے کہ کارکردگی چند دنوں میں عیاں ہو جائے گی اور پھر ہوا بھی یوں کہ چند دنوں میں صفائی کے معاملات بہتر ہونا شروع ہوئے شجرکاری مہم زوروں پر آگئی جس کا برملا اعتراف چوہدری محمد عظیم تحصیل صدر پی ٹی آئی نے کیا واٹرسپلائی میں بہتری آئی‘ ٹیوب ویل جو سالہا سال سے بند تھا وہ بحال ہوا‘ سٹریٹ لائٹس کی تنصیب شروع ہو گئی‘ دولتالہ، بیول، جبر، مندرہ میں صفائی مہم شروع ہوگئی، گوجرخان میں نالوں کی صفائی پہلی مرتبہ اتنی ہوئی کہ مون سون کی بارشوں کے دوران لوگوں کے گھروں میں پانی داخل نہ ہوا‘ ورنہ ہر سال لوگوں کا لاکھوں کا نقصان ہوتا تھا اور منتخب نمائندے اپنے بنگلوں میں مزے لے رہے ہوتے تھے،نالوں کی صفائی کے نام پہ لاکھوں خرد برد کئے جاتے تھے، پارکس میں شجرکاری اور صفائی مہم روزانہ کی بنیاد پر جاری رہی، گلی محلوں میں نالوں، نالیوں، گلیوں کی صفائی کا سلسلہ جاری رہا، پانی کی سپلائی کا شیڈول جاری ہوا، ایک فیس بک پوسٹ پہ لوگوں کے کام ہونے لگے اور سب سے اہم اور ضروری بات یہ کہ ہر جمعہ کے دن مساجد کے باہر صفائی کا خصوصی انتظام ہوا، محرم الحرام کے دوران مجالس اور جلوسوں کے روٹس پر ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کی مرمت کرائی گئی، جس کا برملا اعتراف اور خراج تحسین راجہ محسن صغیر بھٹی نے پیش کیا، تین ماہ کے دوران وہ کام ہوئے جو کئی سالوں سے نہیں ہورہے تھے۔ یعنی منتخب نمائندوں کو کوئی پوچھ نہیں رہا تھا۔اب بات کرتا ہوں کہ 14اگست کے دن پی ٹی آئی رہنماؤں کے لئے کیسے بھاری رہا؟ حسب سابق اس سال بھی میونسپل کمیٹی میں پرچم کشائی کی تقریب ہوئی جس کے بعد اسسٹنٹ کمشنر غلام سرور، ڈی ایس پی سرکل، ایس ایچ او گوجرخان، ایم پی اے چوہدری جاوید کوثر، چوہدری محمد عظیم سمیت پی ٹی آئی رہنما، چیف آفیسر بلدیہ سمیت افسران، تاجر رہنما اور صحافی ایڈمنسٹریٹر بلدیہ کے دفتر میں بیٹھے ہوئے تھے کہ مسائل پہ گفتگو شروع ہوئی، اسسٹنٹ کمشنر نے سب کو اس بات پہ قائل کیا کہ میرے زیرانتظام اے سی آفس، محکمہ مال اور میونسپل کمیٹی ہے اس لئے مجھ سے ان کے بارے میں سوال کیا کریں یا پھر سب اداروں کا چارج مجھے لے دیں پھر مجھ سے ان کے متعلق سوال کریں، انڈر پاس میں تجاوزات ہیں تو یہ این ایچ اے کا معاملہ ہے، کھوکھا جات کا مسئلہ ہے تو یہ بھی این ایچ اے کا معاملہ ہے، جی ٹی روڈ پر تجاوزات ہیں تو وہ بھی این ایچ اے کا ایریا ہے، چوری ڈکیتی کی وارداتیں ہوتی ہیں تو اس کی ذمہ دار پولیس ہے، ہیلتھ کے مسائل ہیں تو وہ ڈپٹی ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر اور ضلعی افسران صحت کی ذمہ داری ہے۔ جو مسائل میں نے حل کرنے ہیں ان کی فہرست میرے پاس ہے اور ورکنگ جاری ہے اور جو مسائل آپ کو معلوم ہیں ان سے مجھے آگاہ کریں تا کہ میں ان پہ بھی کام کروں، عیدالاضحی پہ ویسٹ مینجمنٹ کمپنی نے ہڑتال کرنی تھی کیونکہ ان کے بقایا جات تھے اور ان کو تنخواہیں نہیں ملی تھیں میں نے بروقت ایکشن لیتے ہوئے ان کے معاملات کلیئر کئے اور عیدالاضحی کے موقع پر مثالی صفائی دیکھنے کو ملی، جس پر پی ٹی آئی کے مقامی رہنما و سابق سٹی کونسلر راجہ سہیل کیانی ایڈووکیٹ نے غلام سرور کی خدمات کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ جیسا کام آپ کررہے ہیں وہ لائق تحسین ہے اور عیدالاضحی پہ آپ کی سپرویژن میں بہت اچھا کام ہوا۔ پی ٹی آئی گلیانہ سے تعلق رکھنے والے رہنما نے اسسٹنٹ کمشنر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ گلیانہ روڈ کی تعمیر ہونا اشد ضروری ہے جس پر ایم پی اے چوہدری جاوید کوثر بول پڑے کہ اس پر مجھ سے بات کرو‘ اے سی کو کیا کہتے ہو، اس کی تعمیر کیلئے جلد منظوری مل جائے گی، اسی دوران چوہدری جاوید کوثر کے دست راست اور ہمہ وقت ساتھ ہونے والے فیض نمبردار بول پڑے کہ اے سی صاحب یہ مطوعہ کے قریب لوگوں نے نالے پر اپنی تجاوزات کر کے نالہ بند کر دیا ہے اور سڑک پر پانی بہہ رہاہے اس کے بارے میں کچھ کریں تو دوبارہ چوہدری جاوید کوثر تھوڑے سخت لہجے میں بول پڑے، نمبردار یہ باتیں میرے ساتھ کرنے والی ہیں یا اے سی کیساتھ، میں منتخب نمائندہ یہاں موجود ہوں مجھ سے بات کرو، فیض نمبردار نے بھی آؤ دیکھا نہ تاؤ، ترکی بہ ترکی جواب دیا کہ وہاں سے گزرنے والے سڑک کی خستہ حالی کی وجہ سے پریشان ہیں اور تین سال ہو گئے یہ مسئلہ حل نہیں ہوا، جس پر ایم پی اے چوہدری جاوید کوثر نے جواب دیا کہ لوگوں نے کروڑوں روپے لگا کر تعمیرات کی ہیں وہ تمہارے کہنے پہ اُکھاڑ دیں گے؟؟ پھر اسسٹنٹ کمشنر کی مداخلت پہ معاملہ تھوڑا ٹھنڈا ہوا کہ اس کو میرٹ پر دیکھ لیتے ہیں۔ سٹیڈیم میں بنی دیوار پہ راجہ سہیل کیانی نے بات کی کہ وہ بہت مسئلہ ہے اس سے سٹیڈیم دو حصوں میں تقسیم ہو گیا ہے تو اسسٹنٹ کمشنر کا کہنا تھا کہ میرٹ کے مطابق دیکھ لیتے ہیں کہ یہ دیوار بنانے میں کس کس کا کتنا کردار ہے اور یہ کام لیگل طریقے سے ہوا ہے یا نہیں تو اس پہ چوہدری محمد عظیم گویا ہوئے کہ اے سی صاحب میں یہاں تحصیل ناظم رہاہوں یہ کام میرٹ میرٹ اور میرٹ والے نہیں ہوتے‘کچھ کام کرنے کیلئے سخت ایکشن لینا پڑتاہے، لیکن اسسٹنٹ کمشنر غلام سرور اس بات پہ ڈٹے رہے کہ میں کوئی غیرقانونی کام نہیں کروں گا اور میرٹ پر اور کاغذات کے مطابق معاملات دیکھے جائیں گے اور اسسٹنٹ کمشنر کے تبادلے کے بعد آج بھی وہ دیوار سٹیڈیم کے درمیان قائم ہے۔ معزز قارئین کرام! ایک دفتر میں ایڈمنسٹریٹر، ایم پی اے، تحصیل صدر حکومتی جماعت، سٹی کونسلرز، تاجر رہنماؤں، صحافیوں کی موجودگی میں جب منتخب نمائندے کو نظرانداز کر کے سرکاری ملازم کو ترجیح دی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ منتخب نمائندے نااہل ہیں اور سرکاری ملازم عوام کے کام کررہاہے جو سب حکومتی رہنماؤں کو میری دانست میں بہت ناگوار گزرا ہے۔ 14اگست کو میونسپل کمیٹی میں ہونے والی گفتگو پہ میں قلم نہ اُٹھاتا اگر اس طرح بھونڈے انداز میں کام کرنے والے افسر کا تبادلہ نہ کرایا جاتا، میں یہ الزام نہیں لگاتا کہ اس ٹرانسفر میں دونوں منتخب نمائندوں کا مکمل کردار ہے لیکن میں یہ الزام ضرور عائد کررہاہوں کہ یہ سیاسی تبادلہ ہوا ہے جس میں منتخب اور غیر منتخب قوتوں کا ہاتھ پوری طرح موجود ہے، اگر ہاتھ نہیں تھا تو منتخب نمائندے اتنے نااہل ہیں کہ وہ ایک فرض شناس افسر کا تبادلہ نہیں رکوا سکتے؟؟ یا تو نااہلی تسلیم کی جائے یا پھر یہ تسلیم کیا جائے تاکہ تبادلہ انہوں نے ہی کرایا ہے۔ موجودہ اسسٹنٹ کمشنر زیب النساء نے چارج سنبھال لیا ہے، ان کی کارکردگی بھی چند دنوں میں عیاں ہو جائے گی، میرے شہر اور تحصیل کی بہتری کیلئے جو کام کرے گا اس کا بھرپور ساتھ دوں گا اور جو اس شہر کیساتھ بھلائی کا ارادہ نہیں رکھتا وہ سرکاری افسر ہو، ملازم ہو، منتخب نمائندہ ہو یا سیاسی کارکن، میں اس کا مخالف ہوں اور رہوں گا۔ ان شاء اللہ۔ والسلام
197