سیاسی صورتحال اور عوامی مسائل

پاکستان میں اس وقت سیاسی صورتحال گھمبیر ہے عوام پریشان ہیں کہ کیا ہونے والا ہے کیونکہ کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ کیا ہو گا پل پل سیاسی صورتحال بدل رہی ہے اور کچھ پتہ نہیں کہ اگلے پل کیا ہو جائے سیاسی صورتحال نے پوری قوم کو ایک ذہنی اذیت میں مبتلاء کر رکھا ہے عوام پوچھتے ہیں کب حالات بدلیں گے کب آسانی پیدا ہوگی لیکن کوئی بھی نہیں بتا رہا بس یہ کہا جاتا ہے کہ انتظار کریں جلد اچھا وقت آئے گا لیکن اسی انتظار میں آسانی ہونے کے بجائے مشکل مزید بڑھتی جا رہی ہے آجکل حکومت اپنی کارکردگی اور اپوزیشن اس کی خراب کارکردگی پر سیاست چمکانے کے لئے کوشاں ہے حکومت کے اپنے اراکین اور اتحادی نالاں دکھائی دے رہے ہیں اور اپوزیشن کے پاس کوئی ایسی چھڑی نہیں کہ حکومت کو چلتا کرے حکومتی دعوے محض دعووں تک محدود ہیں خوشحالی کے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے ہیں عوام سے سیاسی کھیل کھیلا جا رہا ہے سوالات اٹھ رہے ہیں نظر یہ کہاں کھڑا ہے نعرے اور دعوے کہاں کھڑے ہیں صرف عوام کو بیوقوف بنانے کے لئے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کی جارہی ہے اقتدار کی سیڑھیوں پر چڑھنے کے لئے ہر قسم کا سمجھوتہ کر لیا جاتا ہے جمہوریت کے نام پر عوام کی قربانی لگتی ہے مفادات کی دوڑ میں عوامی خواہشات کا خون کیا جاتا ہے عوام کے ووٹ سے طاقت حاصل کر کے عوام کو صبر کا دامن تھامنے کی تلقین کی جاتی ہے لوگ انتظار کر رہے ہیں کہ کب غربت ختم ہوگی کب ان کو بنیادی ضروریات ملیں گی کب ان کے لئے نئی صبح آئے گی اچھے دنوں کے انتظار میں وہ تو قع لگا کر بیٹھے ہیں سیاسی جماعتیں عوام کو یقین دلا رہی ہیں کہ وہ عوام کے حالات بدلیں گی لیکن ابھی تک عوام کے حالات تو نہیں بدلے البتہ ان حالات کو بدلنے کا دعویٰ کرنے والوں کے حالات ضرور تبدیل ہو چکے ہیں بظاہر جمہوریت کے نعرے لگانے والے ہی جمہوریت کا خون کرتے ہیں مسائل کم ہونے کے بجائے بڑھ رہے ہیں ان مسائل کے حل پر توجہ دینے کے بجائے ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے میں وقت کو ضائع کر رہے ہیں قومی اسمبلی جہاں عوام اپنے مسائل کے حل کے لئے نمائندے منتخب کر کے بھیجتے ہیں وہاں عوامی مسائل پر بحث کم ہوتی ہے زیادہ وقت دوسروں پر تنقید اور پنی تعریفوں میں گزرتا ہے زیادہ تر حکومت اور اپوزیشن کی نشستیں خالی نظر آتی ہیں عوام کے ٹیکسوں کے پیسے کا بے دریغ استعمال ہوتا ہے کیا اسی لئے یہ سسٹم بنایا گیا تھا؟ حالات کی نزاکت کو کوئی سمجھنا ہی نہیں چاہتا یا جان بوجھ کر آنکھیں بند کر رکھی ہیں ذاتی مفادات ہی تمام خرابیوں کی جڑ ہے جب تک یہ جڑ ختم نہیں ہو گی تب تک عوام کے مسائل حل ہونے کی توقع نہیں ہے اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اپنی سمت درست کریں اور آگے بڑھ کر عوام کے مسائل کے حل کر لئے اکٹھے ہو جائیں تاکہ ہمارا ملک ترقی کر سکے اگر ایسا نہیں ہوتا توپھر عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے گا جس بنیاد پر سیاست ہوتی ہے اگر وہ بنیاد کمزور ہو جائے تو پھر سیاست کا بچنا مشکل ہو جاتا ہے سب سے پہلے بنیاد کو مضبوط کیا جائے تا کہ سیاست بھی چلتی رہے اور ریاست بھی مضبوط ہو بنیاد کو کمزور کرنے والے یاد رکھیں کہ بنیاد کمزور ہونے کے بعد پوری عمارت اُن پر ہی گرے گی اس لئے عمارت کی مضبوطی کے لئے بنیاد کی مضبوطی لازمی ہے اور اس کے لئے سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا تب جا کر سیاست کے ساتھ ساتھ معیشت بھی مضبوط ہو گی اور عوام کے مسائل میں کمی واقع ہوگی مہنگائی پر بات کی جائے تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ذرا
سوچئے کہ ہمارا ملک کس طرف جا رہا ہے کیا مہنگائی کا طوفان رک سکے گا یا مزید تیزی سے آگے بڑھے گا ابھی تک موجوہ مہنگائی کے طوفان نے عوام کی چیخیں نکال دی ہیں حکومت نے پٹرول ڈیزل اور مٹی کا تیل مہنگا کر دیا ہے پٹرول اور ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت میں پینتیس روپے فی لٹر اضافہ کر دیا گیا ہے ایک بات تو طے ہے کہ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی کا مزید طوفان آنے کا امکان ہے اور ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں اضافہ یقینی ہے مہنگائی نے عوام کے لئے ایک وقت کی روٹی کا حصول بھی مشکل بنا دیا ہے اور مزید مہنگائی سے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہو گا اور مہنگائی کے اثرات سے تنخواہ دار طبقہ کی حالت ناقابل بیان ہے ان حالات میں مزدور دار طبقے کی حالت بیان کرنا مشکل ہے حکومت نے عالمی مالیاتی ادارے کے مطالبے پر دو سو ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے کی تیاری کر لی ہے اور پاور سیکٹر کی سبسڈی کو ختم کرنے اور ایکسپورٹ سیکٹر کے لئے خام مال پر سیلز ٹیکس لگانے پر غور کر رہی ہے بجلی اور گیس کے نرخوں میں مزید اضافہ بھی حکومت کے ایجنڈے میں شامل ہے اے سی کے سامنے بیٹھ کر گرمی میں کام کرنے والوں کے لئے درست فیصلے کرنا ممکن نہیں ہے اور مہنگی گاڑی میں بیٹھ کر پیدل چلنے والے اور لوکل گاڑیوں میں دھکے کھانے والوں کے مسائل کا اندازہ نہیں ہو سکتا اور اپنے گھر میں اناج کا ذخیرہ کر کے پڑوسی کی بھوک کا اندازہ نہیں لگا یا جا سکتا بڑی بڑی کوٹھیوں میں بیٹھ کر کھلے آسمان تلے سونے والوں سے ہمدردی کیسے ہو سکتی ہے اس لئے ساری سیاست اپنے ذاتی مفادات کے لئے ہے اب قوم کو پہچاننا ہو گا کہ کس طبقے نے ان کو مہنگائی کے عذاب میں مبتلا کیا ہے ہر حکومت کسی نہ کسی صورت میں عوام پر مہنگائی بم گراتی رہی ہے اور پھراپوزیشن میں آنے کے بعد عوام کے ہمدرد بن کر مہنگائی پر سیاست کر کے اپنے سیاسی مفادات کو حاصل کیا جاتا ہے اس وقت حکومت مخالف جماعتیں مہنگائی کو مسئلہ بنا کر میدان میں آکر بیان بازی کر رہی ہیں اب تو حکومت کی اتحادی جماعتیں بھی حکومت کے ساتھ کھڑی تو رہیں گی لیکن اپنے حلقوں میں حکومتی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بھی بنائیں گی اپوزیشن حکومت پر تنقید کرتی رہے گی اور حکومت اپوزیشن کو آڑے ہاتھوں لے گی یوں یہ کھیل چلتا رہے گا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عوام کا کیا بنے گا اس کا کسی کو کوئی فکر نہیں ہے عوا م کے نام پر سیاست جاری رہے گی لیکن عوام کے دکھوں کے مداوا کے لئے کوئی اپنی جیب کو ہلکا نہیں کرے گا اور نہ ہی کوئی اپنے اکاؤنٹس سے پیسے نکلوا کر سرکاری اکاؤنٹ میں جمع کروائے گا چولھا غریب کا بجھے گا اشرافیہ کو کوئی فرق نہیں پڑے گا میڈیا پر بڑوں کے مفادات کی باتیں ہو رہی ہوتی ہیں عام آدمی کے مسائل اجاگر کرنے کے لئے کوئی ایجنڈ ا نہیں ہے فی بجٹ آئے تب بھی غریب ہی پسے گا سیاستدانوں کو کائی فرق نہیں پڑے گا اب عوام کو خود فیصلہ کرنا ہو گا کہ کون ان کا خیر خواہ ہے اور کون ان کو اپنے سیاسی مفادات کے لئے استعمال کر رہا ہے بڑوں کے مفادات کے لئے عوام تو باہر نکل آتے ہیں لیکن عوام کے مفادات کے لئے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا احتجاج یا سیاسی بیان بازی سے کچھ نہیں بنتا بات تب بنے گی جب مہنگائی کو کم کرنے کے لئے کوئی بڑ ا ریلیف ملے گا جب تک ہماری اشرافیہ مکمل ٹیکس نہیں دے گی جب تک اپنے اثاثوں کو عوام کے لئے قربان نہیں کریں گے اس وقت تک بات نہیں بنے گی اب وقت آگیا ہے کہ عوام بھی ایسے لیڈروں کے لئے قربانی نہ دیں جو صرف عوام کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کرتے ہیں اب ہمیں فیصلہ کرنا ہو گا کہ ہمارے لیڈر ہم میں سے ہوں گے ہم جیسے ہوں گے ہمارے درمیان ہوں گے اگر ہم نے ایسا کر لیا تو بات یقینابن جائے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں