سیاسی جھگڑے ‘نتائج ووٹر بھگتتے ہیں یا لیڈر/مسعود جیلانی

سیاست کے میدان میں اکثر اوقات ووٹ دینے لینے کے متعلق جب بھی کسی محفل میں بات ہوتی ہے تو اس میں گلیاں ، نالیاں ، پل، سڑکوں اور دیگر ترقیاتی کاموں کا تذکرہ ہو تا ہے ووٹ لینے والا ہمیشہ اپنے طرف سے علاقے میں زیادہ ترقیاتی کام کرنے کا دعویدار ہوتا ہے اور یہی کہتا ہے کہ جتنی میں نے علاقے کی خدمت کی ہے شاید اہلِ علاقہ نے مجھے اس کا پورا صلہ نہیں دیا

میرا اشارہ کسی مخصوص علاقے یا حلقہ کی جانب نہیں بلکہ یہ باتیں کئی ایک مقامات پر سنی اور دیکھنے کو ملی ہیں ووٹ بناتے وقت ایک لیڈر یااس کا سپورٹر ووٹ بنانے جیتنے یا جیت کر علاقے میں سڑکیں پل بنانے کے دعوے تو کر دیتے ہیں لیکن وہ ذار بھی نہیں سوچتے کہ ان کے ووٹ بنانے کے طریقۂ کار سے کیا کسی کی انفرادی زندگی تو متاثر نہیں ہوئی کیا انہوں نے جو ووٹ کھینچ کر اپنی طرف کیا ہے اس سے کسی کا سہاگ تو نہیں لٹ گیا کوئی بچے اپنے باپ کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے پا کر گھر میں بھوکے پیاسے اکیلے تو نہیں بیٹھے ہوئے یا کیا ان کے ایک ووٹ نے کسی شریف آدمی پر اشتہاری کا لیبل لگا کر اسے گھر بدر تو نہیں کر دیا

جس سے اس شریف کے گھر بھی بدمعاش بچے پروان چڑھنا شروع ہو گئے یقیناً معاشرے کے ان کروٹ بدلتے حالات کی طرف کسی نے سوچا بھی نہیں ہو گا میرے یہ الفاظ پڑھنے والوں کو ایک افسانوی کہانی کے ا لفاظ یا کسی ڈائجسٹ کی عبارت لگ رہے ہوں گے نہیں ایسی بات نہیں میں چند ایک ایسے حقیقی واقعات آپ کے سامنے تحریر کر رہا ہوں جن تک آ پ پہنچ کر یقینی طور پر میرے ان الفاظ سے متفق ہونے پر مجبور ہو جائیں گے بلکہ بعض زندہ و حیات لوگوں سے بنفسِ نفیس مل کر ان واقعات کی تصدیق کر کے ان الفاظ سے اتفاق کر لیں گے یہاں میں یہ بھی ضرور کہوں گا کہ اس سیاسی گناہ کے مرتکب لوگ اب بھی اپنے اور ان کے متاثرہ لوگوں کے زندہ ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان سے معافی مانگ کر اپنی آخرت بھی بہتر کر سکتے ہیں چک بیلی خان تا راولپنڈی ویگن سروس کہنے کو تو ایک پبلک ٹرانسپورٹ ہے

لیکن عملی طور پر چک بیلی خان ویگن اڈہ ایک سیاسی اڈہ نظر آتا تھا اڈے کی جگہ ایک سیاسی جماعت کے سرکردہ کارکن کی ملکیت ہے اڈہ منیجر اس کا کرایہ ادا کرتا ہے سیاسی ماحول میں اس اڈہ سے چلنے والی ویگنیں جگہ کے مالک کی وابستہ جماعت کے پوسٹرگاڑیوں پر چسپاں کرنے پر مجبور ہوتی تھیں کیونکہ ایسا نہ کرنے پر انہیں اپنے روزگار سے ہاتھ دھونا پڑتے تھے ق لیگ کا دورِ حکومت آتے ہی انہوں نے اس کمزوری کو شدّت سے محسوس کیا یہاں تک کہ وزن برابر کرنے کے لئے موضع رنوترہ کی ایک اور پارٹی کو ملا کر اپنا ٹرانسپورٹ اڈہ کھول لیا سیاسی محاذ پر کاروباری محاذ بھی کھل گیا بات لڑائی جھگڑے تک گئی جس کی وجہ سے دونوں جانب سے مجموعی طور لگ بھگ چودہ کے قریب افراد قتل ہو گئے

اڈے کی جگہ کے مالک اور منیجر سمیت کئی افراد پر قتل کا مقدمہ درج ہو گیا اڈے کی جگہ کے مالک سیاسی شخص کو چوہدری نثار علی خان کی قربت نے بچا لیا جبکہ باقی تمام لوگ اس کی سزا ابھی تک بھگت رہے ہیں سابقہ کونسلر اور ٹرانسپورٹر چوہدری گلاب خان کو بالکل بے یارو مددگار چھوڑ دیا گیا جنہوں نے دو سال سے زائد عرصہ اپنے بیٹے سمیت جیل میں گذارا اور 37لاکھ روپے صرف کرنے کے بعد دھمیال یاترا کر کے اپنی جان بچائی موضع رنوترہ گروپ کے جن لوگوں سے اپنے سیاسی مفاد کے لئے ق لیگ والوں نے اڈہ کھلوا کر ویگن سروس شروع کروائی تھی اور انہیں جھگڑوں کی آگ میں جھونکا تھا وہ ابھی تک اشتہاری ہیں ان میں سے ایک سابقہ کونسلر ملک ساجدجو پہلے منتخب ہو کر لوگوں کی نمائندگی کرتا تھا اب اشتہاریوں کی لسٹ میں شامل ہو کر پولیس مقابلے میں مارا گیا ہے

البتہ اس کے ورثأ میں سے اب تک اسے پولیس مقابلہ ماننے کو تیار نہیں بلکہ اس کو پولیس کی شہہ میں سیاسی سطح پر مروانے کا دعویٰ کر رہے ہیں صرف اور صرف اس جھگڑے میں اور لوگوں کی تفصیل لکھی جائے تو شاید اس تحریر میں وہ ممکن نہ ہو اس لئے ان دو سابقہ کونسلرزکی مثالوں پر اکتفا کرتے ہیں دو سال تک جیل کی سلاخوں پیچھے بیٹے سمیت رہنے والے اور اپنے 37لاکھ روپے اس میں ضائع کرنے والے چوہدری گلاب خان کوچوہدری نثار علی خان کی جانب سے توجہ نہ ملنے پر بہت دکھ تھا جس کے لئے انہوں نے شکوے کرنے کے لئے جناب چوہدری نثار علی خان سے وقت مانگا لیکن ان کی جانب سے دو منٹ کا وقت نہ مل سکا دوسری جانب ق لیگ کے اشارے پر اڈہ کھڑا کرنے والوں کو ق لیگ منظرِ عام سے غائب نظر آتی ہے کسی کی سیاست کے لئے قربانی دینے والے چوہدری گلاب خان، ملک عابد اور مرحوم تایا اشرف کے خاندان ابھی تک بھگت رہے ہیں اور نسلوں تک اس کے اثرات رہنے کے امکانات ہیں لیکن ان لوگوں کے خون اور ان کی نسلوں کی پریشانیوں کے اوپر سیاست کرنے والوں میں راجگان سیاست سے دور ہو کر گھر بیٹھ گئے ہیں

جبکہ عوام کے ساتھ ووٹر اور سیاستدان کا نہیں ہیر رانجھے اور سسی پنوں کا رشتہ رکھنے کا دعویٰ کرنے والے چوہدری نثار علی خان دو سال کی جانی اور 37لاکھ کی مالی قربانی بمع اولاد دینے والے چوہدری گلاب خان کے لئے دو منٹ نہیں نکال سکے شاید ان کی نظر میں ہیر رانجھے یا سسی پنوں کے رشتے اسی طرح تھے یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ آجکل کے ہیر رانجھے یا سسی پنوں کے رشتے کی بات کرتے ہوں جن کے رشتے ایوب پارک کے اندر تک ہو تے ہیں اور باہر آ کر ختم ہو جاتے ہیں اگر چوہدری نثار علی خان اپنے برتری کے احساس سے نکل کر ذرا سا بھی کردار ادا کریں تو کوئی وجہ نہیں قتل و غارت گری کی لگی ہوئی یہ آگ نہ صرف بجھ سکے گی بلکہ اس کی جگہ امن کے پھول کھل سکیں گے چوہدری صاحب نے ان کاموں کے لئے شیخ اسلم صاحب کو رکھا ہوا ہے

جو اپنے ذاتی گاؤں کو اس آ گ سے نہیں نکال سکے بلکہ ان پر تو اس آگ کو پھونکیں مارنے کے الزامات ہی آتے ہیں چوہدری صاحب یہاں یہ نہ سوچئیے گا کہ میری تنقید آپ پر زیادہ ہوئی ہے راجگان نے بھی اس میں وقت کے مطابق پورا حصہ ڈالا ہے اسی لئے وہ آگ کے شعلے کی طرح آئے ہیں اور پانی کے ریلے کی طرح بہہ گئے ہیں اور اسی کے وہ حقدار بھی تھے چونکہ آپ سے لوگوں کو امیدیں زیادہ ہوتی ہیں اس لئے میرے الفاظ کا مرکز و محور آپ تھے آپ عوام کے لیڈر ہیں ان کے اندر آ کر ان کے مسائل حل کریں آگے نمائندے مقرر نہ کریں س جب تک آپ اپنے نمائندوں پر انحصار کرتے رہیں گے تو تو اس طرح کی سینکڑوں کہانیاں سامنے آ ئیں گی جو قیامت کے دن ایک بڑے پہاڑ کی صورت میں سامنے آ سکتی ہیں.{jcomments on}

 ’¤’¤ ‡§¥ ý „£‡ ¢¢…Ž ‚§„„¥ ¦¤¡ ¤ ž¤ŒŽ/Ÿ’˜¢‹ ‡¤ž ¤
’¤’„ œ¥ Ÿ¤‹  Ÿ¤¡ œ†Ž ¢›„ ¢¢… ‹¤ ¥ ž¤ ¥ œ¥ Ÿ„˜ž› ‡‚ ‚§¤ œ’¤ Ÿ‰šž Ÿ¤¡ ‚„ ¦¢„¤ ¦¥ „¢ ’ Ÿ¤¡ ž¤¡ í  ž¤¡ í ƒží ’œ¢¡ ¢Ž ‹¤Ž „Ž›¤„¤ œŸ¢¡ œ „œŽ¦ ¦¢ „ ¦¥ ¢¢… ž¤ ¥ ¢ž ¦Ÿ¤“¦ ƒ ¥ –Žš ’¥ ˜ž›¥ Ÿ¤¡ ¤‹¦ „Ž›¤„¤ œŸ œŽ ¥ œ ‹˜¢¤‹Ž ¦¢„ ¦¥ ¢Ž ¤¦¤ œ¦„ ¦¥ œ¦ ‡„ ¤ Ÿ¤¡  ¥ ˜ž›¥ œ¤ Š‹Ÿ„ œ¤ ¦¥ “¤‹ ¦žª ˜ž›¦  ¥ Ÿ‡§¥ ’ œ ƒ¢Ž ”ž¦  ¦¤¡ ‹¤ Ÿ¤Ž “Ž¦ œ’¤ ŸŠ”¢” ˜ž›¥ ¤ ‰ž›¦ œ¤ ‡ ‚  ¦¤¡ ‚žœ¦ ¤¦ ‚„¤¡ œ£¤ ¤œ Ÿ›Ÿ„ ƒŽ ’ ¤ ¢Ž ‹¤œ§ ¥ œ¢ Ÿž¤ ¦¤¡¢¢… ‚ „¥ ¢›„ ¤œ ž¤ŒŽ ¤’ œ ’ƒ¢Ž…Ž ¢¢… ‚  ¥ ‡¤„ ¥ ¤ ‡¤„ œŽ ˜ž›¥ Ÿ¤¡ ’œ¤¡ ƒž ‚  ¥ œ¥ ‹˜¢¥ „¢ œŽ ‹¤„¥ ¦¤¡ ž¤œ  ¢¦ Ž ‚§¤  ¦¤¡ ’¢ˆ„¥ œ¦   œ¥ ¢¢… ‚  ¥ œ¥ –Ž¤›¦¿ œŽ ’¥ œ¤ œ’¤ œ¤  šŽ‹¤  ‹¤ „¢ Ÿ„†Ž  ¦¤¡ ¦¢£¤ œ¤  ¦¢¡  ¥ ‡¢ ¢¢… œ§¤ ˆ œŽ ƒ ¤ –Žš œ¤ ¦¥ ’ ’¥ œ’¤ œ ’¦ „¢  ¦¤¡ ž… ¤ œ¢£¤ ‚ˆ¥ ƒ ¥ ‚ƒ œ¢ ‡¤ž œ¤ ’žŠ¢¡ œ¥ ƒ¤ˆ§¥ ƒ œŽ §Ž Ÿ¤¡ ‚§¢œ¥ ƒ¤’¥ œ¤ž¥ „¢  ¦¤¡ ‚¤…§¥ ¦¢£¥ ¤ œ¤   œ¥ ¤œ ¢¢…  ¥ œ’¤ “Ž¤š ³‹Ÿ¤ ƒŽ “„¦Ž¤ œ ž¤‚ž ž œŽ ’¥ §Ž ‚‹Ž „¢  ¦¤¡ œŽ ‹¤ ‡’ ’¥ ’ “Ž¤š œ¥ §Ž ‚§¤ ‚‹Ÿ˜“ ‚ˆ¥ ƒŽ¢  ˆ§  “Ž¢˜ ¦¢ £¥  ¤›¤ Ç Ÿ˜“Ž¥ œ¥   œŽ¢… ‚‹ž„¥ ‰ž„ œ¤ –Žš œ’¤  ¥ ’¢ˆ ‚§¤  ¦¤¡ ¦¢  Ÿ¤Ž¥ ¤¦ žš— ƒ§ ¥ ¢ž¢¡ œ¢ ¤œ š’ ¢¤ œ¦ ¤ œ¥  žš— ¤ œ’¤ Œ£‡’… œ¤ ˜‚Ž„ ž Ž¦¥ ¦¢¡ ¥  ¦¤¡ ¤’¤ ‚„  ¦¤¡ Ÿ¤¡ ˆ ‹ ¤œ ¤’¥ ‰›¤›¤ ¢›˜„ ³ƒ œ¥ ’Ÿ ¥ „‰Ž¤Ž œŽ Ž¦ ¦¢¡ ‡  „œ ³ ƒ ƒ¦ ˆ œŽ ¤›¤ ¤ –¢Ž ƒŽ Ÿ¤Ž¥   žš— ’¥ Ÿ„š› ¦¢ ¥ ƒŽ Ÿ‡‚¢Ž ¦¢ ‡£¤¡ ¥ ‚žœ¦ ‚˜•  ‹¦ ¢ ‰¤„ ž¢¢¡ ’¥ ‚ š’ª  š¤’ Ÿž œŽ   ¢›˜„ œ¤ „”‹¤› œŽ œ¥    žš— ’¥ „š› œŽ ž¤¡ ¥ ¤¦¡ Ÿ¤¡ ¤¦ ‚§¤ •Ž¢Ž œ¦¢¡  œ¦ ’ ’¤’¤  ¦ œ¥ ŸŽ„œ‚ ž¢ ‚ ‚§¤ ƒ ¥ ¢Ž   œ¥ Ÿ„†Ž¦ ž¢¢¡ œ¥  ‹¦ ¦¢ ¥ œ š£‹¦ …§„¥ ¦¢£¥   ’¥ Ÿ˜š¤ Ÿ  œŽ ƒ ¤ ³ŠŽ„ ‚§¤ ‚¦„Ž œŽ ’œ„¥ ¦¤¡ˆœ ‚¤ž¤ Š  „ Ž¢žƒ Œ¤ ¢¤  ’Ž¢’ œ¦ ¥ œ¢ „¢ ¤œ ƒ‚žœ …Ž ’ƒ¢Ž… ¦¥ ž¤œ  ˜Ÿž¤ –¢Ž ƒŽ ˆœ ‚¤ž¤ Š  ¢¤  Œ¦ ¤œ ’¤’¤  Œ¦  —Ž ³„ „§ Œ¥ œ¤ ‡¦ ¤œ ’¤’¤ ‡Ÿ˜„ œ¥ ’ŽœŽ‹¦ œŽœ  œ¤ Ÿžœ¤„ ¦¥ Œ¦ Ÿ ¤‡Ž ’ œ œŽ¤¦ ‹ œŽ„ ¦¥ ’¤’¤ Ÿ‰¢ž Ÿ¤¡ ’ Œ¦ ’¥ ˆž ¥ ¢ž¤ ¢¤ ¤¡ ‡¦ œ¥ Ÿžœ œ¤ ¢‚’„¦ ‡Ÿ˜„ œ¥ ƒ¢’…Ž¤¢¡ ƒŽ ˆ’ƒ¡ œŽ ¥ ƒŽ Ÿ‡‚¢Ž ¦¢„¤ „§¤¡ œ¤¢ œ¦ ¤’  ¦ œŽ ¥ ƒŽ  ¦¤¡ ƒ ¥ Ž¢Ž ’¥ ¦„§ ‹§¢  ƒ„¥ „§¥ › ž¤ œ ‹¢Žª ‰œ¢Ÿ„ ³„¥ ¦¤  ¦¢¡  ¥ ’ œŸ¢Ž¤ œ¢ “‹­„ ’¥ Ÿ‰’¢’ œ¤ ¤¦¡ „œ œ¦ ¢  ‚Ž‚Ž œŽ ¥ œ¥ ž£¥ Ÿ¢•˜ Ž ¢„Ž¦ œ¤ ¤œ ¢Ž ƒŽ…¤ œ¢ Ÿž œŽ ƒ  …Ž ’ƒ¢Ž… Œ¦ œ§¢ž ž¤ ’¤’¤ Ÿ‰ ƒŽ œŽ¢‚Ž¤ Ÿ‰ ‚§¤ œ§ž ¤ ‚„ ž£¤ ‡§¥ „œ £¤ ‡’ œ¤ ¢‡¦ ’¥ ‹¢ ¢¡ ‡ ‚ ’¥ Ÿ‡Ÿ¢˜¤ –¢Ž ž ‚§ ˆ¢‹¦ œ¥ ›Ž¤‚ šŽ‹ ›„ž ¦¢ £¥ Œ¥ œ¤ ‡¦ œ¥ Ÿžœ ¢Ž Ÿ ¤‡Ž ’Ÿ¤„ œ£¤ šŽ‹ ƒŽ ›„ž œ Ÿ›‹Ÿ¦ ‹Ž‡ ¦¢ ¤ Œ¥ œ¤ ‡¦ œ¥ Ÿžœ ’¤’¤ “Š” œ¢ ˆ¢¦‹Ž¤  †Ž ˜ž¤ Š  œ¤ ›Ž‚„  ¥ ‚ˆ ž¤ ‡‚œ¦ ‚›¤ „ŸŸ ž¢ ’ œ¤ ’ ‚§¤ „œ ‚§„ Ž¦¥ ¦¤¡’‚›¦ œ¢ ’žŽ ¢Ž …Ž ’ƒ¢Ž…Ž ˆ¢¦‹Ž¤ ž‚ Š  œ¢ ‚žœž ‚¥ ¤Ž¢ Ÿ‹‹Ž ˆ§¢ ‹¤ ¤ ‡ ¦¢¡  ¥ ‹¢ ’ž ’¥ £‹ ˜Ž”¦ ƒ ¥ ‚¤…¥ ’Ÿ¤„ ‡¤ž Ÿ¤¡ Ž ¢Ž 37žœ§ Ž¢ƒ¥ ”Žš œŽ ¥ œ¥ ‚˜‹ ‹§Ÿ¤ž ¤„Ž œŽ œ¥ ƒ ¤ ‡  ‚ˆ£¤ Ÿ¢•˜ Ž ¢„Ž¦ Ž¢ƒ œ¥ ‡  ž¢¢¡ ’¥ ƒ ¥ ’¤’¤ Ÿš‹ œ¥ ž£¥ › ž¤ ¢ž¢¡  ¥ Œ¦ œ§ž¢ œŽ ¢¤  ’Ž¢’ “Ž¢˜ œŽ¢£¤ „§¤ ¢Ž  ¦¤¡‡§¢¡ œ¤ ³ Ÿ¤¡ ‡§¢ œ „§ ¢¦ ‚§¤ „œ “„¦Ž¤ ¦¤¡  Ÿ¤¡ ’¥ ¤œ ’‚›¦ œ¢ ’žŽ Ÿžœ ’‡‹‡¢ ƒ¦ž¥ Ÿ „Š‚ ¦¢ œŽ ž¢¢¡ œ¤  Ÿ£ ‹¤ œŽ„ „§ ‚ “„¦Ž¤¢¡ œ¤ ž’… Ÿ¤¡ “Ÿž ¦¢ œŽ ƒ¢ž¤’ Ÿ›‚ž¥ Ÿ¤¡ ŸŽ ¤ ¦¥ ž‚„¦ ’ œ¥ ¢Ž†¿ Ÿ¤¡ ’¥ ‚ „œ ’¥ ƒ¢ž¤’ Ÿ›‚ž¦ Ÿ  ¥ œ¢ „¤Ž  ¦¤¡ ‚žœ¦ ’ œ¢ ƒ¢ž¤’ œ¤ “¦¦ Ÿ¤¡ ’¤’¤ ’–‰ ƒŽ ŸŽ¢ ¥ œ ‹˜¢¤½ œŽ Ž¦¥ ¦¤¡ ”Žš ¢Ž ”Žš ’ ‡§¥ Ÿ¤¡ ¢Ž ž¢¢¡ œ¤ „š”¤ž žœ§¤ ‡£¥ „¢ “¤‹ ’ „‰Ž¤Ž Ÿ¤¡ ¢¦ ŸŸœ   ¦ ¦¢ ’ ž£¥   ‹¢ ’‚›¦ œ¢ ’žŽœ¤ Ÿ†ž¢¡ ƒŽ œ„š œŽ„¥ ¦¤¡ ‹¢ ’ž „œ ‡¤ž œ¤ ’žŠ¢¡ ƒ¤ˆ§¥ ‚¤…¥ ’Ÿ¤„ Ž¦ ¥ ¢ž¥ ¢Ž ƒ ¥ 37žœ§ Ž¢ƒ¥ ’ Ÿ¤¡ •£˜ œŽ ¥ ¢ž¥ ˆ¢¦‹Ž¤ ž‚ Š  œ¢ˆ¢¦‹Ž¤  †Ž ˜ž¤ Š  œ¤ ‡ ‚ ’¥ „¢‡¦  ¦ Ÿž ¥ ƒŽ ‚¦„ ‹œ§ „§ ‡’ œ¥ ž£¥  ¦¢¡  ¥ “œ¢¥ œŽ ¥ œ¥ ž£¥ ‡ ‚ ˆ¢¦‹Ž¤  †Ž ˜ž¤ Š  ’¥ ¢›„ Ÿ  ž¤œ    œ¤ ‡ ‚ ’¥ ‹¢ Ÿ … œ ¢›„  ¦ Ÿž ’œ ‹¢’Ž¤ ‡ ‚ › ž¤ œ¥ “Ž¥ ƒŽ Œ¦ œ§ œŽ ¥ ¢ž¢¡ œ¢ › ž¤ Ÿ —Ž ª ˜Ÿ ’¥ ™£‚  —Ž ³„¤ ¦¥ œ’¤ œ¤ ’¤’„ œ¥ ž£¥ ›Ž‚ ¤ ‹¤ ¥ ¢ž¥ ˆ¢¦‹Ž¤ ž‚ Š í Ÿžœ ˜‚‹ ¢Ž ŸŽ‰¢Ÿ „¤ “Žš œ¥ Š ‹  ‚§¤ „œ ‚§„ Ž¦¥ ¦¤¡ ¢Ž  ’ž¢¡ „œ ’ œ¥ †Ž„ Ž¦ ¥ œ¥ Ÿœ „ ¦¤¡ ž¤œ    ž¢¢¡ œ¥ Š¢  ¢Ž   œ¤  ’ž¢¡ œ¤ ƒŽ¤“ ¤¢¡ œ¥ ¢ƒŽ ’¤’„ œŽ ¥ ¢ž¢¡ Ÿ¤¡ Ž‡  ’¤’„ ’¥ ‹¢Ž ¦¢ œŽ §Ž ‚¤…§ £¥ ¦¤¡ ‡‚œ¦ ˜¢Ÿ œ¥ ’„§ ¢¢…Ž ¢Ž ’¤’„‹  œ  ¦¤¡ ¦¤Ž Ž ‡§¥ ¢Ž ’’¤ ƒ ¢¡ œ Ž“„¦ Žœ§ ¥ œ ‹˜¢¤½ œŽ ¥ ¢ž¥ ˆ¢¦‹Ž¤  †Ž ˜ž¤ Š  ‹¢ ’ž œ¤ ‡ ¤ ¢Ž 37žœ§ œ¤ Ÿž¤ ›Ž‚ ¤ ‚Ÿ˜ ¢ž‹ ‹¤ ¥ ¢ž¥ ˆ¢¦‹Ž¤ ž‚ Š  œ¥ ž£¥ ‹¢ Ÿ …  ¦¤¡  œž ’œ¥ “¤‹   œ¤  —Ž Ÿ¤¡ ¦¤Ž Ž ‡§¥ ¤ ’’¤ ƒ ¢¡ œ¥ Ž“„¥ ’¤ –Ž‰ „§¥ ¤ ¤¦ ‚§¤ ¦¢ ’œ„ ¦¥ œ¦ ¢¦ ³‡œž œ¥ ¦¤Ž Ž ‡§¥ ¤ ’’¤ ƒ ¢¡ œ¥ Ž“„¥ œ¤ ‚„ œŽ„¥ ¦¢¡ ‡  œ¥ Ž“„¥ ¤¢‚ ƒŽœ œ¥  ‹Ž „œ ¦¢ „¥ ¦¤¡ ¢Ž ‚¦Ž ³ œŽ Š„Ÿ ¦¢ ‡„¥ ¦¤¡ Ž ˆ¢¦‹Ž¤  †Ž ˜ž¤ Š  ƒ ¥ ‚Ž„Ž¤ œ¥ ‰’’ ’¥  œž œŽ Ž ’ ‚§¤ œŽ‹Ž ‹ œŽ¤¡ „¢ œ¢£¤ ¢‡¦  ¦¤¡ ›„ž ¢ ™Ž„ Ž¤ œ¤ ž¤ ¦¢£¤ ¤¦ ³  ¦ ”Žš ‚‡§ ’œ¥ ¤ ‚žœ¦ ’ œ¤ ‡¦ Ÿ  œ¥ ƒ§¢ž œ§ž ’œ¤¡ ¥ ˆ¢¦‹Ž¤ ”‰‚  ¥   œŸ¢¡ œ¥ ž£¥ “¤Š ’žŸ ”‰‚ œ¢ Žœ§ ¦¢ ¦¥ ‡¢ ƒ ¥ „¤ £¢¡ œ¢ ’ ³  ’¥  ¦¤¡  œž ’œ¥ ‚žœ¦   ƒŽ „¢ ’ ³ œ¢ ƒ§¢ œ¤¡ ŸŽ ¥ œ¥ žŸ„ ¦¤ ³„¥ ¦¤¡ ˆ¢¦‹Ž¤ ”‰‚ ¤¦¡ ¤¦  ¦ ’¢ˆ£¤¥  œ¦ Ÿ¤Ž¤ „ ›¤‹ ³ƒ ƒŽ ¤‹¦ ¦¢£¤ ¦¥ Ž‡   ¥ ‚§¤ ’ Ÿ¤¡ ¢›„ œ¥ Ÿ–‚› ƒ¢Ž ‰”¦ Œž ¦¥ ’¤ ž£¥ ¢¦ ³ œ¥ “˜ž¥ œ¤ –Ž‰ ³£¥ ¦¤¡ ¢Ž ƒ ¤ œ¥ Ž¤ž¥ œ¤ –Ž‰ ‚¦¦ £¥ ¦¤¡ ¢Ž ’¤ œ¥ ¢¦ ‰›‹Ž ‚§¤ „§¥ ˆ¢ œ¦ ³ƒ ’¥ ž¢¢¡ œ¢ Ÿ¤‹¤¡ ¤‹¦ ¦¢„¤ ¦¤¡ ’ ž£¥ Ÿ¤Ž¥ žš— œ ŸŽœ ¢ Ÿ‰¢Ž ³ƒ „§¥ ³ƒ ˜¢Ÿ œ¥ ž¤ŒŽ ¦¤¡   œ¥  ‹Ž ³ œŽ   œ¥ Ÿ’£ž ‰ž œŽ¤¡ ³¥  Ÿ£ ‹¥ Ÿ›ŽŽ  ¦ œŽ¤¡’ ‡‚ „œ ³ƒ ƒ ¥  Ÿ£ ‹¢¡ ƒŽ  ‰”Ž œŽ„¥ Ž¦¤¡ ¥ „¢ „¢ ’ –Ž‰ œ¤ ’¤ œ¢¡ œ¦ ¤¡ ’Ÿ ¥ ³ £¤¡ ¤ ‡¢ ›¤Ÿ„ œ¥ ‹  ¤œ ‚¥ ƒ¦ œ¤ ”¢Ž„ Ÿ¤¡ ’Ÿ ¥ ³ ’œ„¤ ¦¤¡.

اپنا تبصرہ بھیجیں