سیاسی جماعتوں کا اتحاد ناگزیر

ملک میں اس وقت شدید سیاسی بحران ہے۔ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے دست گریباں ہیں کوئی کسی دوسرے کا حق تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے۔ سب اپنے اپنے حقوق کی بات کرتے ہیں اور اگر ان سے ان کارکردگی کے بارے میں پوچھا جائے تو فوراً مخالف جماعتوں کے ترجمان بن جاتے ہیں اور ان کی کارکردگی بلکہ خامیاں شمار کرنے لگتے ہیں۔ اس پر ان سے چاہے گھنٹوں بات کرا لیں وہ بولتے چلے جائیں گے اور ان کی پوری تاریخ کھول کر سامنے رکھ دیں گے لیکن اپنی کارکردگی کے بارے میں ایک لفظ نہیں بولیں گے۔ اگر سیاستدانوں کی پریس کانفرنسیں دیکھیں تو وہاں بھی آپ کو یہی نظر آئے گا کہ پریس کانفرنس کرنے والے سیاستدان مخالف جماعتوں کے رہنماؤں پر مسلسل کیچڑ اچھال رہے ہوتے ہیں اور ان کی تمام کی تمام خامیاں بیان کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ ان کی نااہلیاں اور ناقص کارکردگی عوام کے سامنے لاتے ہیں لیکن اپنی کارکردگی کے بارے میں کچھ نہیں بتاتے۔
پریس کانفرنسوں میں تو یہ ہوتا ہی ہے ٹی وی ٹاک شوز کیلئے ہمارے اینکر حضرات مختلف جماعتوں سے تعلق رکھنے والے چند سیاستدانوں کو لے کر بیٹھ جاتے ہیں اور ان سے ان کی کارکردگی کے بارے میں سوال کرتے ہیں تو وہ اپنی کارکردگی بتانے یا اپنے ناجائز عمل کی وضاحت کرنے کی بجائے دوسروں کے بارے میں بتانا شروع کر دیتے ہیں کہ انہوں نے ایسا کیا اور ایسا ویسا کرتے رہے ہمارے سیاستدانوں کی یہی روایت سیاسی انتشار کا بڑا سبب ہے کہ اپنی کارکردگی سے عوام کو آگاہ نہیں کرتے اور یہ ان کی مجبوری بھی ہے کیونکہ کسی کی ایسی کوئی قابل ذکر کارکردگی ہوتی بھی تو نہیں ہے تو پھر کیسے آگا ہ کریں۔ تو جب اپنی کارکردگی کی بجائے دوسروں کی خامیاں بیان کرنے پر زور ہو گا تو جھگڑا تو پیدا ہو گا۔ جس کا براہ راست نقصان ریاست کو ہوتا ہے۔ اس بات کی پرواہ کیے بغیر سب کو اپنی اپنی سیاست چمکانے کی فکر ہے ہر ایک اپنے عمل کو درست ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتا ہے چاہے اس کے لیے اسے کتنے ہی جھوٹ بولنے پڑیں اور دوسروں کی کردار کشی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اس کے لیے بھی انہیں چاہے کتنے ہی جھوٹ بولنے پڑیں۔ سیاست افتراء و انتشار کا دوسرا نام بن چکی ہے۔
سیاستدان اپنے کارکنوں کو بھی ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کیے ہوئے ہیں۔ تمام سیاسی کارکن ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے میں مشغول ہیں اس کے لیے سوشل میڈیا کا خوب استعمال کیا جاتا ہے جہاں سیاسی رہنما کارکنوں کی پوسٹیں لگی ہوتی ہیں جن میں وہ دوسروں
کے خلاف زہر اگل رہے ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر کبھی لوگ معلومات شیئر کرتے تھے اور معلومات حاصل کرتے تھے۔ اسی طرح لوگ وقت گزاری کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کرتے تھے مگر اب تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا کو سیاسی کارکنان نے یرغمال بنا لیا ہے اور اس پر اپنا قبضہ کر کے عوام میں نفرتیں اور انتشار پھیلا رہے ہیں۔ سیاسی جماعتیں اور ان کے کارکنان اپنے علاوہ کسی اور کو محب وطن، انسان اور مسلمان سمجھنے کے لیے ہی تیار نہیں ہیں۔ سب کو غداری کے سرٹیفیکیٹ بانٹ رہے ہیں، جو نیوٹر ل ہو وہ جانور ہے اسی طرح عمران خان کے خلاف ووٹ دینا شرک ہے وغیرہ جیسی مہمات چلارہے ہیں۔ دیگر جماعتیں ایک دوسرے کی حریف ہونے کے باوجود کسی مصلحت کی بنا پر اکٹھی ہو جاتی ہیں،ایک دوسرے کے لیے مذاکرات کے دروازے کھلے رکھتی ہیں اور ایک دوسرے کا احترام کرتی ہیں لیکن یہاں ایسا نہیں
ہے تحریک انصاف کے رہنما سیاست میں مخالف نظریہ رکھنے والے سے ہاتھ تک نہیں ملاتے، ملکی مفاد کی خاطر بھی ان سے ملنا گوارا نہیں کرتے۔ جس کی وجہ سے پوری دنیا میں ہمارا ملک ایک تماشا بنا ہوا ہے۔ بھارت سمیت دنیا بھر کے لوگ ان کی حرکات سے محظوظ ہو رہے ہیں۔ کوئی ملک ہم پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہے، دوست ملک بھی ہم سے دور بھاگتے ہیں۔ کیونکہ سیاسی بحران ہر طرح کے بحرانوں کو جنم دیتا ہے اور ہم تو سیاسی بحران کی آگ میں جل رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے ملک میں ہر طرح کے بحران ہیں، سب سے بڑا بحران معاشی بحران ہے جس نے ملک کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے، ڈالر کی قیمتیں کہاں پہنچی ہوئی ہیں، دن بدن قرضوں میں بے تحاشا اضافہ ہو رہا ہے، غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ان بحرانوں سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی جماعتیں آپس میں اتحادات قائم کریں اورایک دوسرے کے خلاف غلیظ زبانیں استعمال کرنا اور جھوٹے پروپیگنڈے بند کریں اور معاشی استحکام کے لیے ایک میز پر بیٹھیں اور سر جوڑ کر سوچیں کہ اس ملک کو کس طرح بحرانوں سے نکالا جائے۔ عوام کو ریلیف کیسے دیا جائے۔ اس کے لیے انا کے بت کو توڑنا ہو گا، دوسروں سے ہاتھ ملانا ہوگا۔ تبھی ملک کو بحرانوں سے نکالنا ممکن ہو گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں