پی ڈی ایم کی تحریک کا پہلا مرحلہ اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہا اور جلوسوں میں جس قدر عوامی شمولیت کی توقع کی جا رہی تھی وہ پوری نہیں ہو سکی مگر اس کا مطلب ہر گز نہیں کہ ملک میں سب کچھ اچھا ہے حقیقت یہ ہے کہ پی ڈی ایم کی ناکامی کے باوجود معاشرے میں ہر طرف حکومت کے خلاف بے چینی اور افراتفری موجود ہے ملک میں احتجاجی جلسے اور جلوس منعقد ہو رہے ہیں کبھی سرکاری ملازمین اپنی تنخواہوں میں اضافہ نہ ہونے کا رونا رو رہے ہیں اور کبھی ڈاکٹر اور نرسیں اور کبھی بجلی اور گیس کے صارفین اور کبھی مہنگائی سے تنگ آئے لوگ باہر نکل کر احتجاج اور مظاہرے کر رہے ہیں اور کبھی ریلیاں نکال رہے ہیں اگر عوامی جائزہ لیا جائے تو تاجروں سے مزدور وں تک ہر کوئی اپنی معاشی بد حالی پر مفطرب اور پریشان دکھائی دیتا ہے اور ہر کوئی اپنے دگرگوں حالات سے غیر مطمئن ہے اور ہر ایک کا یہ خیال ہے کہ جو اسے ملنا چاہیے تھا وہ اسے نہیں مل رہا یا جو خواب اسے دکھائے گئے تھے اور جو وعدے اس سے کئے گئے تھے وہ پورے ہوتے نظر نہیں آرہے جب معاشرے میں اس طرح کا عمومی تناؤ ہو تو عوامی احتجاج کا ماحول پیدا کرنے کے لئے صرف ایک دیا سلائی دکھانے کی ضرورت ہوتی ہے حکومت خوش قسمت ہے کہ اہل سیاست کو ابھی ایسی دیا سلائی نہیں مل سکی جو اس تناؤ اور افراتفری کوانقلاب اور عوامی احتجاج میں تبدیل کرنے کیلئے ضروری ہے جب آپ کو اپنی امید سے کم ملے تو افراتفری اور بے چینی شروع ہو جاتی ہے جب آپ کو محسوس ہونے لگے کہ آپ کو محنت اور جدوجہد کے باوجود اآپ کو وہ کچھ نہیں مل رہا جس کا وعدہ کیا گیا تھا یا جس کی امید دلائی گئی تھی تو پھر اضطراب اور بے چینی جنم لیتی ہے اس وقت ہر طرف یہی صورت حال نظر آرہی ہے دراصل وعدے اس قدر بلند بانگ اور امید یں بہت زیادہ ہوتی ہیں لیکن عملدرآمد نہ ہونے کے برابر وعدوں اور عملدرآمد میں خلا ء اور تفاوت ہی بے چینی اور تناؤ کی اصل وجہ ہے اگر حکمران بے چینی اور افراتفری کا توڑ نہ کریں تو بے چینی میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور آخر کار یہی بے چینی‘تبدیلی کا باعث بنتی ہے بے چینی دراصل سیاسی شعور کے اظہار کا ذریعہ ہے اور جب اس اظہار کا مثبت جواب نہ ملے تو پھر اس کا رخ تبدیلی کی طرف مڑ جاتا ہے موجودہ حکومت کو ہر طرف پھیلی بے چینی اور تناؤ کو سکون میں بدلنے کیلئے دوررس اقدامات کرنا ہوں گے ورنہ اگلے انتخابات میں یہی بے چینی اور افراتفری غصہ بن کر اس حکومت کے خلاف کام کرے گی دنیا بھر کی تحریکوں کی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ تحریک پہلے ہی دن آگ کے الاؤ کی طرح جلتی اور بھڑکتی نہیں بلکہ پہلے چھوٹی چھوٹی چنگاریاں سلگتی ہیں ان میں ہلکی ہلکی آگ لگتی ہے پھر رفتہ رفتہ یہی چنگاریاں بڑے بڑے انگارے بن کر الاؤ کی آگ کو تیز کر دیتی ہیں ابھی تک کی صورت حال میں جلسے‘جلوس احتجاج اور مظاہرے چھوٹی چھوٹی چنگاریاں ہیں حکومت کو چاہیے کہ ان چنگاریوں پر ابھی سے پانی ڈالے تاکہ یہ الاؤ کی شکل اختیار کر کے حکومت کے لئے خطرہ نہ بن جائیں عمران خان نے بائیس سال کوچہ کوچہ قریہ قریہ جلسے اور جلوس اور دھرنے کی سیاست کی ہے اس لئے وہ بذات خودعوامی مزاج سے بخوبی واقف ہیں امید ہے کہ وزیراعظم‘کابینہ‘وزراے‘مشیران‘معاونین خصوصی‘معاشی ٹیم اور ترجمانوں جو کہ قابلیت اور اہلیت میں دنیا کے بڑے بڑے دانشوروں اور فلاسفروں کے ہم پلہ گردانے جاتے ہیں نے ان احتجاجی جلوسوں
کے اندر عوامی مزاج کا اندازہ ضرور لگایاہو گا اور پھر عوامی افراتفری ختم کرنے یا اس کا مداوا کرنے کے بارے میں کوئی نہ کوئی فارمولا ضرور بنایا ہو گاتوقع کرنی چاہیے کہ اس فارمولے پرجلد ازجلد عملدرآمد کرنے کا آغاز بھی ہو گادوسری طرف پی ڈی ایم تحریک کے دوسرے مرحلے کو شروع کرنے والی ہے اسے بھی ٹھنڈے دل سے ہر طرف موجود عوامی مسائل کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے اور انہی مسائل کو اپنی تحریک کا حصہ بنانا چاہیے کوئی بھی تحریک صرف سیاسی کارکنوں کی شرکت سے کامیاب نہیں ہو سکتی حقیقت یہ ہے کہ اگر عام لوگ کسان‘مزدوریا معاشرے کے دوسرے طبقے کسی مہم یا تحریک میں شریک نہ ہوں تو اس کی کامیابی کا امکان بہت ہی کم ہوتا ہے پی ڈی ایم کی تحریک کو پہلے مرحلے میں یہ کمزوری خاص طور پر دیکھنے میں آئی کہ اس میں صرف سیاسی کارکن ہی شریک تھے عوام‘کاشتکار‘مزدور یا طالب علم اس میں نظر نہیں آئے پی ڈی ایم نے اگر کامیاب ہونا ہے تواسے بے چینی اور تناؤ میں مبتلا طبقات سے رابطہ کرنا ہوگا اور پھر ان کے ساتھ مل کراپنے احتجاج کو مربوط کرنا ہو گا جبکہ دوسری طرف حکومت کی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ سیاسی جماعتوں اور مضبوط طبقات کا اتحاد نہ ہو سکے اس کیلئے حکومت کو احتجاجی طبقات کے مسائل حل کرنے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے اور حکومت کا سب سے بڑا فرض یہ ہے کہ وہ عوام کو اطمینان اور سکون کی دولت سے مالامال کرے اور ان کی امیدوں پر حتی الوسع پورااترنے کی کوشش کرے ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہو رہا اس لئے عوم میں بے چینی اور افراتفری دن بدن بڑھتی جا رہی ہے اگر اس معاملے کا مثبت پہلو دیکھا جائے تووہ یہ ہے حکومت کو نصف مدت مکمل ہونے کے باوجود لوگوں کی امیدیں مکمل طور پر ٹوٹ چکی ہیں لیکن پھر بھی انہیں امید ہے کہ حکومت ان کے ساتھ کئے گئے وعدے پورے کرے گیاور یہ جلسہ جلوس اور احتجاج حکومت کو جھنجھوڑنے اور توجہ دلانے کیلئے ہیں اگر حکومت نے ان جلسے‘جلوسوں اور احتجاجی مظاہروں کا اثر قبول نہ کیا اور عوامی‘افراتفری کا خیال نہ کیا تو پھر اگلا مرحلہ ناراضگی اور مخالفت کا ہو گا البتہ جب عوام کی امیدیں مکمل طور پر ٹوٹ جائیں گی اور بے چینی اور افراتفری کا ملاوانہ کیا جائے گا تو اضطراب مزید بڑھے گا اور پھر یہ تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو گا
275