سیاست کی بجائے عبادت پر توجہ دیں

رمضان المبارک کا مہینہ امت محمدیہ کے لیے ایک عظیم نعمت ہے، اس مہینے میں اللہ کی رحمتیں اور برکتیں موسلا دھار بارش کی طرح برستی ہیں۔ رمضان کے مہینے میں اتنی رحمتیں اور برکتیں رکھی گئی ہیں کہ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے اس امت کو بخشنے کا ہی فیصلہ کر لیا ہے اور اس امت کے گناہگاروں کی بخشش کے لیے رمضان المبارک کو ایک بہانہ بنا یا ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو آسمان کے تمام دروازے کھول دیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں شیاطین کو زنجیروں سے جکڑ دیا جاتا ہے“۔ اس حدیث میں آسمان کے دروازے کھولنے سے صاف واضح ہوتا ہے کہ جب تمام دروازے کھل گئے تواللہ رب العزت کی عنایتیں براہ راست زمین پر اترتیں ہیں جن کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی۔ اس مہینے میں نیکیوں کا ثواب بڑھا چڑھا کر عطا کیا جاتا ہے اس کی فضیلت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن کریم کو اللہ تعالیٰ نے اسی مہینہ میں نازل فرمایا اور نبی کریم ﷺنے اس مہینہ کی نسبت اللہ رب العزت کی طرف کرتے ہوئے فرمایا: ”شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان اللہ کا مہینہ ہے۔“ یہ مہینہ روزے اور قیام کا ہے۔ ایک مہینہ روزے رکھنا ارکان اسلام میں سے ایک بنیادی رکن ہے۔ اس ماہ مبارک میں اللہ تعالیٰ کی رحمت مسلمانوں کو اپنے سائے میں ڈھانپ لیتی ہے۔ اس مہینے کے روزے اللہ تعالیٰ نے فرض کیے ہیں۔ اس کی راتوں میں نوافل کے طور پر نماز تراویح کو بہت افضل قرار دیاگیا ہے۔ اس مہینے میں نفل نماز کا ثواب اتنا ہے جتنا رمضان کے علاوہ فرض کا ثواب ہوتا ہے۔ رمضان المبارک میں ایک فرض کا ثواب ایسا ہے جیسے دوسرے مہینوں میں ستر فرائض ادا کیے ہوں۔ اس مہینے میں روزہ دار کو روزہ افطار کرانا بخشش اور نجات کا ذریعہ ہے اور افطار کرانے والے کو اتنا ہی ثواب ملتا ہے جتنا کہ خود روزہ رکھنے والے کواور روزہ دار کے ثواب سے بھی کچھ کمی نہیں کی جاتی۔ اس مہینے کا پہلا عشرہ موجب رحمت الٰہی ہے اور درمیان والا عشرہ موجب مغفرت اور آخری عشرہ جہنم سے نجات کا سبب ہے۔ اس مہینہ میں جس نے اپنے غلام (ملازم و ماتحت) کی محنت و مشقت میں تخفیف کی اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو بخش دے گا اور دوزخ سے نجات عطا فرمائے گا۔ اس مہینے میں صیام و قیام کے فضائل پر بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں۔ اس مہینے کے اصل ثمرات و برکات فقط ان لوگوں کو ہی حاصل ہوتے ہیں جو روزے کا پورا حق ادا کرتے ہیں یعنی خود کو ہر طرح کی برائی سے بچاتے ہوئے نیکیوں میں سبقت لے جانے کی کوشش کرے۔ اس مہینے میں انسان کو بھوکا پیاسا رکھنا مقصود نہیں ہے بلکہ روزے کا اصل مقصد وہ ہے جو اللہ نے خود بیان فرمایا، جس کا مفہوم یہ ہے کہ”تم پر روزے اس لیے فرض کیے گئے ہیں تا کہ تم متقی بن جاؤ“۔ اب اگر کوئی شخص سارا دن روزہ رکھ کر بھی گناہوں سے نہیں بچتا تو اسے روزے کے فوائد و برکات حاصل نہیں ہوتے بلکہ اسے بھوکا پیاسا رہنے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ انسان کی خواہشات میں کھانے پینے سے طاقت آتی ہے اور وہ انسان کو برائی کی طرف لے جاتی ہیں، اگر پیٹ بھوکا ہو تو انسان کا میلان گناہوں کی طرف کم ہوتا ہے۔ لہٰذا روزہ دار کا اکثر بڑے گناہوں کی طرف تو رجحان نہیں ہوتا لیکن بہت سے ایسے گناہ انسان سے سرزد ہوتے رہتے ہیں جن کی اسے خبر ہی نہیں ہوتی جیسے جھوٹ، غیبت، بدنظری وغیرہ تو ایسے روزے کے بدلے میں سوائے سر سے فرض اترنے کے کچھ بھی نہیں ملتا۔ پھر ہمارے ملک میں حالیہ دنوں سیاسی صورتحال نہایت ابتر ہو چکی ہے، رمضان المبارک سے چند روز قبل اور رمضان میں بھی سیاست میں بہت ہلچل مچی ہوئی ہے۔ ملک میں سیاسی بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ سیاستدان اپنے مفادات کے لیے ملک کو انارکی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ وفاق اور پنجا ب میں خصوصی طور پر یہ بحران شدید ہو چکا ہے۔ ملک منتخب وزیراعظم سے محروم ہے اور پنجاب بھی وزیراعلیٰ کے بغیر چل رہا ہے۔ ایسے میں عوام کے اذہان کا منتشر ہونا بدیہی بات ہے۔ عوام اپنے رہنماؤں اور عدلیہ کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ وہ ملک کو اس بحران سے نکال کر ملک میں سیاسی استحکام لائیں تاکہ ملک کے تمام شعبوں میں امن و امان قائم ہو جائے اور عوام ذہنی کوفت سے نجات حاصل کر لیں۔ لوگ سارا دن ٹی وی پر خبریں اور تجزیے سنتے رہتے ہیں۔ پھر سوشل میڈیا پراپنی اپنی سیاسی جماعت کے حق میں پوسٹیں کرتے رہتے ہیں۔ دوسروں کے ساتھ فضول بحث میں الجھے رہتے ہیں یہاں تک کہ مساجد بھی ان ابحاث سے بچ نہیں سکیں۔ کئی لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ مسجد میں بھی موجودہ سیاسی صورتحال پر بحث کر رہے ہوتے ہیں۔ جس کا کوئی فائدہ نہیں ہے نلہٰذا رمضان المبارک کی ان ساعات کی قدر و قیمت کو جانتے ہوئے اس میں اپنا وقت ان ابحاث میں برباد نہیں کرنا چاہیے۔ ہم نہ تو حالات کو بدل سکتے ہیں اور نہ ہی ہماری بات کسی فورم پر سنی جاتی ہے۔ اس لیے رمضان میں خود کو زیادہ سے زیادہ عبادات میں مشغول رکھیں، ذکر و تلاوت کی کثرت کریں جو وقت ٹی وی دیکھنے میں صرف کرتے ہیں اسے بھی عبادت میں لگائیں۔ ہاں ملکی ترقی و استحکام کے لیے دعائیں ضرور مانگیں۔ اس ملک کے لیے دعاکریں کہ اللہ اسے نیک دل حکمرانوں عطا فرمائے جو ذاتی مفادات کی بجائے صرف ملکی مفادات کو عزیز رکھتے ہوں۔

ضیاء الرحمن ضیاءؔ

اپنا تبصرہ بھیجیں