51

سیاست میں مخالفت مگر ایک حد تک

محترم قارئین اکرام انسان مجبو ر یو ں، ضر و ر تو ں اور حیثیتوں کے تحت تعلق بناتا،نبھاتا،بدلتا اور آگے بڑھتا جاتا ہے اور تاریخ عالم نے دیکھا ہے کہ مفاد دیکھ کر پینترا بدلتے میں انسان کا کوئی ثانی نہیں رہا چاہیے

تعلق کتنا ہی گہرا اور پرانا کیوں نہ ہو اور دنیا اس چیز کی گواہ ہے انسان جب مخلص ہو تو رشتہ اور تعلق چاہے جن مسافتوں کا ہی کیوں نہ ہو قبر کی پڑیوں تک نبھانے میں بھی انسان کی اپنی مثال آپ ہے حلالی پن بھی یہی ہے۔

مگر آج کا موضوع زیر بحث کچھ اور ہے سیاسی قربتوں اور دوریوں کا پھر قربتوں کا پھر دوریوں کا۔اکثر ہمارے ہاں کی سیاست میں مختلف نظریات اور مختلف مفادات کی سیاست کا عروج رہا ہے۔

خیر مخالف نظریات رکھنے والوں کو خیالات کو خندہ پیشانی سے لینا جمہوریت کے حُسن اور انسان کی میچورٹی کو ظاہر کرنے کے ساتھ ساتھ ظرف ہو بھی ظاہر کرتا ہے۔

مگر مشاہدہ یہ کہتا ہے کہ حقیقت اس کے برعکس ہے میں اگر ملکی لیول کو چھوڑ کر لوکل ہی بات کروں تو لوگ کدورتوں تک پہنچ جاتے ہیں مخالف پارٹی کے بندے کو اگر باہر کی مخلوق سمجھنا شروع کر دیا جاتا ہے ایسے ایسے پروپیگنڈے کیے جاتے ہیں

کہ خدا کی پناہ۔اسی طرح بحث و مباحثہ میں بجائے دلائل کے یا علمی بات کے ایک دوسرے کی ماں بہن ایک کر دی جاتی ہے اور یہ عنصر ہر ایک مکتبہ فکر رکھنے والی جماعت کے کارکنوں میں پایا جاتا ہے اور جو جماعت یہاں اکثریت میں ہو وہاں زیادہ پایا جاتا ہے کیونکہ اقلیت تو ویسے ہی دہڑ مارے ہوتی ہے۔

جبکہ یہ سب کم علمی و عقلی اور جہل کی باتیں ہیں اور جن کے لیے یہ سب باتیں کی جا رہی ہوتیں ہیں وہ نظریہ ضرورت کے تحت نہ صرف ہاتھ ملا لیتے ہیں بلکہ ایک دوسرے کے خلاف کی گئی باتیں رائی کا پہاڑ ثابت ہوتی ہیں

اور پھر سے ایک پلیٹ فارم پر کام کرنے کا عندیہ کر کے نئے سرے سے عوام الناس کو بیوقوف بنا کر کوئی اور سبز باغ دیکھایا جاتا ہے اور غریب لوگ دیکھ بھی لیتے ہیں

مگر اب زمانہ سوشل میڈیا ہے اور سب عیاں ہے اب بھی اگر کوئی ان چالوں میں آکر کسی امیدوار برائے ایم پی اے،ایم این اے کے لیے حد کراس کر دیے تو وہ خود ہی اپنی حالت اور حالات کا ذمہ دار ہے اس ہو چاہیے اپنا ذہنی ٹیسٹ کرائے۔

بات نظریات و مفادات کی ہورہی تھی نظریات پر ملک عظیم جیسے دیس میں رہنا بڑا کھٹن مرحلہ ہے مگر اس کے اگر نتائج پا لیے جائیں تو بڑے دیرپا اور اصولی ہوتی ہیں جبکہ مفادات دیکھ کر چھلانگ لگانا اتنا ہی آسان اور سہل کام ہے

جس کے وقتی بہت فوائد ہیں مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان کو اسکی اصل کا پتہ چلتا ہے۔اور جتنا بڑا آدمی ہوتا ہے مفادات بھی بڑے ہوتے ہیں اس لیے کمپرومائز کرنا پڑتا ہے۔ورنہ کام نہیں چلتا۔

اب حالیہ چند ایک الیکشن اور اس کے بعد کی سیاسی صورت حال کو دیکھ لیں۔لوکل حلقہ جات میں کتنے امیدوران آئے کتنوں کو کتنوں کے خلاف کیا،کیا کیا باتیں ہوئیں کیسے کیسے وار ہوئے۔

لوگ اس حد تک چلے گئے کہ کسی نے اگر کسی سے درکانداری تھی تو وہ چھوڑ دی،کسی نے کسی کی گاڑی پر خود جانا یا بچے بھیجنے چھوڑ دیے،کسی نے کسی سے،، دمنڑ کے بوٹے، کو آگے رکھ کر،ساڑ،نکال دی۔

کسی نے کسی کا تبادلہ تو کسی نے کسی کے گھر فاتحہ بھی مشکل سے لگائی۔یہ سب تو دور کی بات سیاسی مخالف کو دیکھ کر کھنگارنا اور یہاں تک کہ سلام تک نہ دینا بھی شروع کر دیا۔

مگر وہ کیسے ایک دوسرے سے پھر ہاتھ ملا لیتے ہیں اور دوریاں ختم بھی کر لیتے ہیں تقریبات پر اگھٹے بھی ہو جاتے ہیں تو ووٹرز سپوٹرز سے کوئی پوچھتا ہے نہیں ناں۔

کونکہ جیسے ہمارے مفا د ا ت کی سیاست میں چھوٹے چھوٹے مسائل ہیں گلی نالی بھرتی وغیرہ اس طرح ان کے بھی بڑے مفادات ہیں اور ان مفادات میں وہ کب کیسے کہاں کسی کر جائیں کچھ پتہ نہیں۔

اس لیے تمام تر تمہید و مضمون کا مقصد کسی پر کوئی فنگر پوائنٹنگ نہیں بلکہ امیدوار کی اندھی تقلید کر کے برادریوں میں لڑائی پا لینے والے اپنے جیسے لوگوں کے آنکھ کھولنی ہے کہ خداراہ وفاداریاں خوب نبھائیں مگر ایک حد تک۔

حد کبھی نہ کراس کریں نہیں تو حال ہو جائے گا ٹرک کے نیچے آ جانے والی کتی جیسا۔شاید کے تیرے دل میں اتر جائے میری بات

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں