سیاستدان

پروفیسر محمد حسین
ایک اچھا سیاسی نظام ملک کی بنیادی اور اہم ترین ضرورت ہے پاکستان میں سیاست کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اس کے لیے ایک لطیفہ یاد آگیا ’’ایک کفن چور تھا اوربہت بدنام تھا بوڑھا ہوگیا جب مرنے لگا تو اپنے بیٹے کو بلا کر بولا بیٹا لوگ مجھے بہت برا کہتے ہیں بہت بدعائیں دیتے ہیں تم کچھ کر و کہ لوگ مجھے اچھا کہا کریں بیٹا جو اسی پیشے میں تھا بولا ابا جان آ پ فکر مت کریں بوڑھا مر گیا تو بیٹا جب کفن چوری کرتا تھا تو مردے کو قبر سے نکال کر باہر پھینک دیاکرتا تھا لوگ کہنے لگے اس کا باپ تو اچھا آدمی تھا وہ تو مجبوراََ صرف کفن ہی چوری کرتا تھا بیٹا بڑا خراب نکلا ہے جب بیٹا بھی بوڑھاہو گیا اور مرنے لگا تواس نے اپنے بیٹے کو بلایا اور کہنے لگا مجھے لوگ بہت برا کہتے ہیں بہت گالیاں اور بدعائیں دیتے ہیں تم کوئی ایسی ترکیب کرو کہ لوگ مجھے اچھا کہیں بیٹا بولا آپ بے فکر ہو جاؤیہ بیٹا بھی اسی کام پر تھا وہ کیا کرنے لگا کہ کفن چوری کرتا تھا اور مردے کا منہ کالا کر کے چوک میں لٹکا دیا کرتا تھا اب لوگ یہ کہنے لگ پڑے کہ اس کا باپ تو شریف آدمی تھا بیٹا بڑا خراب نکلا ہے‘‘ہمارے سیاستدانوں کا بھی یہی حال ہے وہ لوگوں کا وہ حشر کرتے ہیں کہ ماضی کی ہر چیز بہتر لگتی ہے ہمارے محترم سیاستدانوں کے کارناموں کے سبب سیاست گالی بن چکی ہے عام شہری کے خیال کے مطابق سیاست نام ہی لوٹ کھسوٹ کرپشن خزانہ چوری اور سینہ زوری کا ہے شاید ہی کوئی ایسا سیاسی لیڈر نظر آئے جس کا دامن جھوٹ مالی کرپشن لوٹ کھسوٹ سے پاک ہو ہمارے سیاستدانوں کے کارناموں نے ملک میں کرپشن کے فروغ کے علاوہ لا قانونیت کو بھی بڑے خلوص سے پروان چڑھایا ہے نتیجے کے طور پر آج ملک میں قانون کی حکمرانی ‘انسانی برابری ‘معاشی عدل اور معاشرتی انصاف کا جنازہ نکل چکا ہے ۔ سچ یہ ہے کہ ہماری لیڈر شپ کی سیاست منافقت کا شاخسانہ ہے کہتے کچھ اور ہیں اور کرتے کچھ اور ہیں تقریروں میں کرپشن کو جڑ سے اکھاڑنے ‘قانون کو حکمرانی قائم کرنے اور انصاف مہیا کرنے کے وعدے کرتے ہیں لیکن ان کی عملی زندگیاں ان کے کام اور رویے ان تمام اصولوں کی نفی کرتے ہیں ہمارے ملک میں نہ مستقل نظام ہے اور نہ پیسے کی وافر مقدار‘ مستقل نظام اور پیسے کی وافر مقدار نہ ہونے کی وجہ سے یہاں پر غیر یقینی کی حالت رہتی ہے کہ کسی آدمی کو یہ معلوم نہیں کہ کل کیا ہوگا وزیر یہ سوچتا ہے کہ نہ معلوم کل وہ وزیر رہے گا یا نہیں اور کیا معلوم کل روٹی کا بھی محتاج ہوتا پڑے کیا پتہ کل ملک کا کیا حال ہوگا اس لیے اب ہی بنا لو جو بنانا ہے اور آج تک کسی کا احتساب ہوا ہی نہیں اس لیے کوئی فکر کرنے کی ضرورت نہیں انصاف کی عدم موجودگی میں ایسا ہوا کرتا ہے ہمارے ملک میں سیاسی لحاظ سے دو دور ہی ایسے گزرے جب تھوڑا بہت ملک میں استحکام تھا ایک دور ایوب خان کا تھا اور دوسرادور ضیاء الحق کا‘ ایوب خان کے دور میں قومی آمدنی کا سالانہ رہا انہی وقتوں میں پاکستانی روپے کی قیمت خاصی بہتر رہی اس میں بھی ایوب خان دور میں ترقیاتی کا م بہتر طریقے سے کئے گئے یہی وقت مالی لحاظ سے پاکستان کا بہتر دور تھا یہ دونوں آمریت کے دور کہلاتے ہیں مگر آمر ہمارے جمہوری حکمرانوں سے زیادہ کامیاب رہے ہماری موجودہ جمہوریت میں جو لوگ بھی حکومت سے باہر ہوتے ہیں وہ سب مل کر جائز و ناجائز طریقے سے حکومت کے ہر کام میں ڑورے اٹکا تے اور اسے اکھاڑنے کی کوشش میں کبھی اتحاد بناتے کبھی توڑتے اور ہر طریقہ آزماتے ہیں حکومت والے ان بچنے کے چکر میں ہی اندورنی اور بیرورنی سامراجی طاقتوں کے ہاتھوں بلیک میل ہوتے ہیں ہر بار یہی کھیل دہرایا جاتا ہے ایسا نظام یہاں پر کبھی نہیں چل سکتا پاکستان میں ہمیں تیس سالہ منصوبہ بنا کر اس میں دس دس سال کے تین حصے
کرنے چایئیں پہلے دس سالوں میں ملک کے ادارے بنائے جائیں گے ان کی سب خرابیاں دور کی جائیں گی بیمار حصے کاٹ کر پھینکے جائیں گے اور ایک صحیح ٹیم بنا کر اہم محکموں کو اس کے کنٹرول میں دیا جائیگا دوسرے دس سالہ منصوبے سے پہلے سب صفائی اور لوگوں کی ذہنی تربیت ہو چکی ہوگی دوسر منصوبے میں اداروں کو بڑھایا جائے گا تیسرے دس سالہ منصوبے میں پاکستان میں ہر شے اوپن کر دی جائے گی جیسے فری پورٹ میں ہوتا ہے یہ سب کچھ ہونے کے بعد ملک بڑی مضبوط بنیادوں پر کھڑا ہوگا بنیاد صحیح صاف اور مضبوط ہونی سب سے اہم چیز ہوتی ہے اس منصوبے پر پہلے بہت محنت کرکے پھر اس کو عمل میں لانا ہوگا ورنہ پرانے نظام کی جڑ کٹنے کے بعد اگر یہ لمبا منصوبہ بھی ناکام ہوگیا تو پھر ہر چیز پہلے کی طرح دوبارہ شروع نہیں ہو پاتی سارے ملک کے عوام کی متحدہ سوچ کااثر پورے ملک پر پڑتا ہے نا امید اور مایوس رہنے والی اور یقین سے خالی قوم کبھی ترقی نہیں کرسکتی متحدہ سوچ کا قوم کی تقدیر پر پوری طرح اثر ہوا کرتا ہے جب اس سوچ میں مایوسی اور ناامیدی اور غیر یقینی کی زیادتی ہوتی ہے توپھر وہ ملک و قوم تنزلی کا شکار ہو جاتی ہیں پر امید اور یقین سے بھرپور سوچ کی صورت میں وہاں سکون و ترقی کا دور شروع ہو جایا کرتا ہے تعلیم ایک اہم چیز ہے ہمیں نظام ملک طوسی کا واقعہ یاد رکھنا چاہئے جنہوں نے بادشاہ کے دئے ہوئے سب پیسے سکولوں پر خرچ کردئے تھے اور بادشاہ کے پوچھنے پر بتایا کہ ان سکولوں سے ایسے نوجوان تیار ہوں گے جن کے تیر ستاروں سے بھی اوپر جائیں گے صحیح اور سستی تعلیم ہی قوم کی اہم ترین ضرورت ہوتی ہے تعلیم یافتہ انسان دوسروں سے بہتر ورکر ثابت ہو سکتا ہے جلدی سیکھتا ہے اسے جذباتی نعروں اور جھوٹے وعدوں سے کم ہی ورغلایا جا سکتا ہے مت بھولیں کہ مغرب کی تمام تر ترقی کی بنیاد تعلیم ہی ہے ہماری نظر ملک میں پیسہ لانے تک ہی لگی رہتی ہے کہ کسی طرح پیسہ ملک میں آنے لگ پڑے مگر ہمیں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ ہمارا ملک پیسہ ٹھہرنے کی جگہ بھی بن سکے ورنہ سب کا سب پیسہ واپس سوئٹرز لینڈ کے بنکوں میں چلا جایا کرتا ہے پاکستان میں ہمیں سب سے زیادہ ضرورت ایک مستقل نظام کی ہے تاکہ جو بھی سربراہ مملکت آجائے یا جائے نظام موجود رہے اس کے بعد ہی سب ترقی شروع ہوگی اور غیر یقینی کا خاتمہ ہوگا

اپنا تبصرہ بھیجیں