آصف شاہ
چونترہ، راولپنڈی کی وہ وادی جہاں کے عوام کئی دہائیوں سے سکون نہ دیکھ سکے آج کی نوجوان نسل پرانے رسم رواج سے مختلف ہوکر زندگی گزارنے کے لیے کوشاں ہے تو ہاوسنگ سوسائٹیوں نے انکا جینا دوبھر کرکے رکھ دیا اور ان پر ایکبار پھر قبضہ مافیاء کو مسلط کردیا گیا یہ کام گزشتہ کئی دہائیوں سے اقتدار کے مزے لوٹنے والے ممبران اسمبلی کرتے رہے ہیں چوہدری نثار ہو یا غلام سرور خان کی جنگ کے اگلے مہرے اب قمر اسلام راجہ نعیم اعجاز کی صورت میں موجود ہیں اورکچھ خاموش رہ ستم ڈھا رہے ہیں
تو کچھ ڈنڈے کے زور پر کارروائیاں کررہے ہیں اور کئی دہائیوں کے بعد بھی چونترہ کے عوام آج بھی قبضہ مافیا کے پنجوں میں جکڑے ہوئے ہیں یہاں کی زمین اب صرف مٹی نہیں رہی دولت، طاقت اور اثر و رسوخ کی علامت بن چکی ہے۔ طاقتور گروہ دن دہاڑے کمزور لوگوں کی زمینوں پر قبضے کررہے ہیں جعلی کاغذات تیار ہورہے ہیں اور جو مزاحمت کرے وہ یا تو دھمکیوں کا شکار ہوتا ہے یا کسی جھوٹے مقدمے میں پھنسا دیا جاتا ہے اور اگر زیادہ درد سر بنے تو آخری حل یعنی موت کی نیند سلا دو
چند روز قبل قتل ہونے والا نوجوان ثقلین بھی اسی مکروہ نظام کی تازہ مثال ہے۔ گاؤں کے بیچوں بیچ گولیوں کی آواز گونجی ایک ماں کا لعل بہن کا بھائی کسی بچے بچی کا باپ چھن گیا اور یوں زمین کے تنازعہ نے ایک اور زندگی نگل لی۔ ثقلین کا جرم صرف اتنا تھا کہ اس نے اپنی زمین بچانے کی کوشش کی۔ آج اس کا گھر خاموش ہے، مگر اس خاموشی میں ایک سوال گونجتا ہے کہ آخر کب تک چونترہ کے لوگ اپنی زمینوں، اپنی عزت اور اپنے خوابوں کے لیے یوں قربان ہوتے رہیں گے؟ المیہ صرف چند خاندانوں کا نہیں،
پورے علاقے کا درد ہے۔ قبضہ مافیا کی جڑیں گہری ہو چکی ہیں اورقانون نافذ کرنے والے اداروں کی خاموشی نے اس مافیاء کو مزید طاقتور بنا دیا ہے۔ پولیس کی کارروائیاں تاخیر کا شکارتحقیقات ادھوری اور رپورٹس بے اثرلگتا ہے جیسے قانون محض تماشائی ہو، اور انصاف ایک فاصلہ بن گیا ہو جسے غریب کبھی طے نہیں کر سکتا۔
اور مرے کو مارے شاہ مدار کہ منتخب نمائندے بھی اس بح حسی اور ظلم پر مکمل چشم پوش بن چکے انکی خاموشی ظاہر کرتی ہے کہ وہ اس ظلم میں مکمل شریک ہیں دوران الیکشن وعدے تو بہت کیے گئے، مگر کسی نے چونترہ کے عوام کی قسمت بدلنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ نہ کوئی ترقیاتی منصوبہ آیا، نہ زمینوں کے ریکارڈ شفاف ہوئے، نہ پولیس ریفارمز کی کوئی جھلک دکھائی دی۔
وہی پرانے چہرے، وہی پرانے وعدے، اور وہی پرانا دکھ پہلے یہ چالیں چوہدری نثار اور غلام سرورخان اقتدار کے ایوانوں میں رہنے کے لیے چلتے رہے اب چہرے بدل چکے لیکن نظام وہی بلکہ اس سے بھی سفاک ہوچکا آج کے چونترہ کا نوجوان کچھ کرنا چاہتا ہے وہ سکول کالج کا راستہ دیکھنا چاہتا ہے اسکی آنکھوں میں خواب ہے سپنے ہیں لیکن بدقسمتی سے اقتدار کی ہوس کے پجاری جنکی اپنی نسلیں تو بیرون ملک عیش عشرت پر پل رہی ہیں انہیں چونترہ میں امن گوارا نہیں
چونترہ آج انصاف، تحفظ اور یقین کا متلاشی ہے۔ یہاں کے لوگ اب بھی ریاست کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ کوئی تو آئے، جو ان قبضہ گروہوں کے خلاف کھڑا ہو۔ کوئی تو ہو جو ثقلین جیسے نوجوانوں کے خون کا حساب لے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ادارے جاگیں، قانون حرکت میں آئے، اور عوام کے اس دکھ کو سنجیدگی سے سنا جائے سابق CPOسید شہزاد ندیم بخاری کے جب قبضہ گروہوں کو ہاتھ ڈالا تو وہ تبدیل کردیے گے موجودہ سی پی او سمیت جی ایچ کیو سے کچھ فرلانگ والا چونترہ کیوں امن کا گہوارہ نہیں بن پا رہا ہے
یہ سوال راقم کا نہیں بلکہ چونترہ کے ہر باسی کا ہے جو اس ظلم ستم کا شکار ہے اور ااگر اب بھی خاموشی رہی اور ہمارے اداروں کے سربراہان نہ جاگے تو یقین کریں تو یہ خاموشی ایک دن لاوہ بن پر پھت جائیگی خدا رہا جاگیں اور اس عوام کح حال پر رحم کریں احتساب کفیں انکا جنہوں نے چونترہ کی زرخیز مٹی کو خون سے رنگ دیا ہے اگر آپ اقتدار میں رہتے ہوئے آج احتساب نہیں کرینگے تو یاد رکھیں زندگی کے پچاس ساٹھ گزارنے کے بعد رب کریم کا احتساب شروع ہوگا اور وہاں چونترہ کے عوام کو انصاف ملے گا اس چونترہ کے پسے عوام کا ہاتھ خاموش حکمرانوں کے گریبان میں ہوگا عدالت رب کریم کی ہوگی اور کروڑوں کی ڈیل زلالت کا باعث بنے گی