سکول داخلہ کیلئے ب فارم شرط،نادرا دفاتر میں رش بڑھ گیا

ساجد محمود/ہمارے ملک میں انتظامی لحاظ سے یونین کونسل لوکل گورنمنٹ کا ایک انتہائی اہم حصہ ہے ہر یونین کونسل عام طور پر ایک سے زیادہ دیہات پر مشتمل ہوتی ہے ملک میں پہلی بار صدر ایوب خان کے دور حکومت میں بلدیاتی حکومتوں کے نظام کو متعارف کرایا گیا تھا ہر یونین کونسل کے دفتر میں ایک سیکرٹری یونین کونسل بیٹھتا ہے, یونین کونسل کی حدود میں بچوں کی پیدائش کا اندراج‘کسی بھی فرد کی موت پر فوتگی کی تاریخ کا اندراج‘نکاح نامے کا اندراج‘برتھ اور ڈیتھ سرٹیفیکیٹ کا اجرا اور طلاق کے معاملات بھی سیکرٹری یونین کونسل کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں بچے کی پیدائش کا اندراج آپکے بچے کا پہلا اور بنیادی و قانونی حق ہوتا ہے جو بچے کا باپ ماں یا سرپرست درج کروا سکتا ہے جنرل مشرف کے دور حکومت سن (2000U) میں نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی یعنی (نادرا) کے نام سے منسوب ادارہ قائم کیا گیا تھا اس ادارہ کا بنیادی مقصد عوام کی رجسٹریشن کرنا اور انہیں قومی شناختی کارڈ جاری کرنا ہوتا ہے نادرا کا ادارہ ملک کے کونے کونے میں تحصیل کی سطح پر قائم کیا گیا ہے جو شہریوں کو شناختی کارڈ‘فیملی فارم اور فارم ب کے اجرا کی سہولیات بھی فراہم کرتا ہے تحصیل کلرسیداں میں بھی گورنمنٹ ڈگری کالج کلرسیداں سے چند فرلانگ کے فاصلے پر نادرا کا دفتر قائم کیا گیا ہے جو مکمل طور پر فعال ہے آج کل اگر آپکا کلرسیداں کے نادرا دفتر میں جانے کا اتفاق ہوا ہو تو دفتر کے صحن میں آپکو عوام کا ایک ہجوم نظر آتا ہے ان لائنوں میں لگی زیادہ تعداد ان والدین کی ہے جو سکول میں بچوں کے داخلے کیلیے فارم ب کے حصول کیلیے تشریف لائے ہیں فارم ب نادرا کیطرف سے جاری کردہ وہ فارم ہے جو 18 سال سے کم عمر بچوں کے سکول میں داخلے کیلیے لازمی شرط قرار دیا گیا ہے اسکے حصول کیلئے یونین کونسل سیکرٹری کیطرف سے جاری بچوں کی پیدائشی نقل کے ہمراہ والدین میں سے کسی ایک کا نادرا دفتر جانا ضروری ہے فارم ب بچوں کی شناخت کیلیے انتہائی اہم دستاویز ہے فارم ب کے زریعے آپ بچوں کا پاسپورٹ سکول میں داخلے اور بچوں کے غیر ملکی سفر کیلیے اسے استعمال کرسکتے ہیں اب محکمہ تعلیم کیجانب سے بچوں کو اسکولوں میں بھی داخلے کیلیے فارم ب کی شرط رکھ دی گئی ہے جسکے حصول کیلیے نہ صرف طلبا و طالبات پریشانی سے دوچار ہیں بلکہ انکے والدین کو بھی نادرا دفتر کے چکر لگاتے ہوئے جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں نادرا آفس کلرسیداں میں حالیہ دنوں میں فارم ب اور شناختی کارڈ بنوانے والوں کا رش لگا رہتا ہے تاہم ان افراد میں بہت سے ایسے شہری بھی شامل ہیں جنہوں نے شناختی کارڈ کی میعاد ختم ہونے کے باوجود تجدید حصول شناختی کارڈ کے لیے بہت دیر کردی تھی اب جبکہ اسکولوں میں فارم ب کی شرط رکھ دی گئی ہے تب سے میعادختم ہونے پر پہلے والدین کے شناختی کارڈ کی تجدید کرانا لازمی ہوتا ہے بہت سے ایسے شادی شدہ جوڑے بھی وہاں قطار میں کھڑے نظر آتے ہیں جن میں رشتہ ازواج میں منسلک ہونے کے باوجود شادی شدہ خاتون کے شناختی کارڈ پر ابھی تک انکے والد کی شناخت درج ہے ہونا تو یہ چاہیے کہ شادی کے بعد نئے شناختی کارڈ پر شوہر کا نام درج کرایا جائے مگر ان معاملات کو سلجھانے میں بھی عوام کی غفلت آڑے آگئی ہے بہت سے ایسے واقعات بھی نظروں کے سامنے سے گزرے ہیں کہ بچوں کی پیدائش پر یونین کونسل کے دفتر میں بروقت انکے ناموں کا اندراج کرانے میں بھی والدین کیجانب سے غفلت کا مظاہرہ کیا گیا ہے جس سے مسائل مذید پیچیدگی کی صورت اختیار کرگئے ہیں اسی دوران اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ کچھ سوٹ بوٹ میں ملبوس افراد جو بظاہر کھاتے پیتے گھرانوں سے لگتے ہیں ان سفارشی افراد کو بغیر لائن میں لگے اندر بلوا کر انکے معاملات نمٹائے جاتے ہیں جس سے عوام میں عملے کے خلاف منفی تاثر ابھر کر سامنے آتا ہے نادرا دفتر کلرسیداں میں تعینات عملہ انتہائی خوش اخلاق اور فرض شناسی میں اپنی مثال آپ ہے عملے کے تمام اراکین اپنی پیشہ وارانہ فرائض کی بطریق احسن انجام دہی میں مصروف عمل ہیں جو لائق تحسین ہے تاہم اس بحث کے دوران ان چند درپیش عوامی مشکلات کی نشاندہی کرنا بھی اشد ضروری ہے جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے گو نادرا آفس میں جسمانی معذوری کا شکار افراد کیلیے ویل چئیر کی سہولت دستیاب ہے اگر کوئی اسطرح کے معذور افراد شناختی کارڈ یا دیگر دستاویزات کے حصول کیلیے ناردا دفتر تشریف لاتے ہیں توعملے کے اراکین فوری طور پر اس فرد کی درخواست یا شکایات کی صورت میں اس سے متعلقہ ضابطے کی کاروائی پر بھرپور توجہ دے کر اسے فوری ریلیف فراہم کیا جاتا ہے تاہم دفتر کے باہر بہت سے ادھیڑ عمر مرد وخواتین لائنوں میں کھڑے ہوتے ہیں حکومت سے اپیل ہے کہ انکے لیے بھی شناختی کارڈ اور دیگر دستاویزات کے حصول کے طریقہ کار میں آسانی کے منتظر ہیں بالخصوص جھاڑے کے موسم میں سرد ہواوں سے بچنے کیلیے باہر کھلے صحن میں معمر افراد کیلیے سردی سے بچنے کیلیے معقول جگہ کا بندوبست کرنا ضروری ہوگیا ہے گرمی کے موسم میں بھی گرمی کی شددت سے عوام کو مشکلات سے دوچار ہونا پڑتا ہے اس مقصد کے لیے ہر نادرا آفس میں ایک ہال نما کمرے کی تعمیر انتہائی ضروری ہے۔ شناختی کارڈ و دیگر ضروری دستاویزات کے حصول کی مد میں ٹیکس کی شکل میں عوام جو فیس حکومت کو ادا کرتی ہے اگر اس وصول شدہ رقم کا کچھ حصہ نادرا آفس میں عوام کو بہترین ضروری سہولیات فراہم کرنے پر خرچ کیا جائے تو اس سے عوامی شکایات کے ازالے اور انکی مشکلات کو کم کرنے میں کافی مدد ملے گی مئی 2019 میں نادرا کی طرف سے جعلی شناختی کارڈ کے اجرا کا معاملہ اس وقت منظر عام پر آیا تھا جب ملک کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی نے نادرا چئرمین کو ایک رپورٹ ارسال کی تھی جس میں نادرا کے اعلی احکام سمیت 120 اہلکاروں نے جعلی شناختی کارڈز کے حصول میں انتہا پسندوں کی مدد کی تھی جن میں 603 کارڈز غیر ملکی باشندوں کے زیر استعمال تھے جو بظاہر تو پاکستان کے شہری نہیں تھے مگر خود کو پاکستانی شہری ثابت کرنے کیلیے انکے پاس بطور ثبوت جعلی شناختی موجود تھے تاہم اس اسکینڈل کے منظرعام پر آنے کے بعد تحقیقاتی اداروں کو نادرا ملازمین کے ملوث ہونے کے واضح ثبوت مل گئے تھے جنہوں نے لالچ اور بھاری رقم کے عوض ملکی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا تھا تاہم بعدازاں نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی نے 120 نادرا ملازمین کو برطرف کردیا تھا جو اس معاملے میں ملوث پائے گئے تھے بعدازاں غیر قانونی طریقہ کار سے حاصل شدہ ایک لاکھ 55 ہزار شناختی کارڈ بھی بلاک کر دیے گئے تھے بعد میں حکومت کیجانب سے پیروی کرتے ہوئے انکے اس فعل پر عدالتوں سے انہیں قرار واقع سزائیں بھی دلوائی گئی تھیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں