Categories: کالم

“سوچنا چھوڑ دو، فالو کرو: جدید دور کا نعرہ

دنیا کے موجودہ حالات پر اگر کوئی صاحبِ بصیرت غور کرے تو ایک بات بہت جلدی واضح ہو جاتی ہے کہ انسان اب سوچنے کے بجائے فیصلہ کرنے میں زیادہ جلدی کرتا ہے۔ سوشل میڈیا سے لے کر سیاسی مجالس تک، ہر شخص اپنے خیالات کو ایک جنگ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ دلیل، فہم اور برداشت کا فقدان ہے۔ جیسا کہ کہا گیا ہے، “تقریباً ہر جگہ سوچنے کے بجائے، ہر کوئی یکطرفہ ہو جاتا ہے۔ کسی بھی چیز کے حق میں یا خلاف۔” یہ جملہ ہماری اجتماعی ذہنی کیفیت کی عکاسی کرتا ہے۔ ہم نے سوچنے کے عمل کو اپنی پسند و ناپسند کی قربان گاہ پر قربان کر دیا ہے۔ اختلافِ رائے اب دشمنی بن گیا ہے، اور اتفاقِ رائے صرف اس وقت پسند کیا جاتا ہے جب وہ ہمارے نظریے سے میل کھاتا ہو۔ یہ طرزِ عمل کسی ایک قوم یا طبقے کا نہیں بلکہ ایک عالمی رجحان بن چکا ہے۔

اس فکری بیماری کی ابتدا سیاست سے ہوئی، جیسا کہ مشاہدہ کیا گیا کہ سیاسی دنیا میں “ہم” اور “وہ” کے بیانیے نے ذہنوں کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ سیاست دانوں نے عوامی سوچ کو اپنی مہمات کے تابع کر دیا، اور لوگ شعور کی بجائے نعرے کے اسیر بن گئے۔ مثال کے طور پر، ایک عام شخص اگر کسی سیاسی رہنما پر تنقید کرے تو فوراً اسے مخالف جماعت کا فرد سمجھ لیا جاتا ہے۔ اس کے دلائل پر بات کرنے کے بجائے، اس کی نیت پر شک کیا جاتا ہے۔ یہی تقسیم مذہب، سماج اور تعلیم کے شعبوں میں بھی پھیل گئی۔ یوں سیاسی تقسیم نے فکری تقسیم کی بنیاد رکھ دی۔ اب ایک عام گفتگو بھی نظریاتی میدانِ جنگ بن گئی ہے۔ لوگ سچائی نہیں، صرف اپنے حق کی جیت چاہتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز نے اس تقسیم کو مزید گہرا کیا۔ ہر شخص اپنی “ڈیجیٹل دنیا” میں ایسے لوگوں کے ساتھ رہنے لگا جو اس کی طرح سوچتے ہیں، یوں اختلاف کی گنجائش ہی ختم ہو گئی۔

عام لوگوں کے تجربات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ فکری مرض صرف سیاست تک محدود نہیں رہا بلکہ زندگی کے ہر پہلو میں در آیا ہے۔ ایک نوجوان طالبعلم جب اپنی رائے دیتا ہے تو اکثر اس کے اساتذہ یا ہم جماعت اسے “غلط سوچ” کا طعنہ دیتے ہیں۔ ایک ملازم اگر اپنے ادارے کے طریقہ کار پر سوال اٹھائے تو اسے “نافرمان” قرار دے دیا جاتا ہے۔ ایک مذہبی شخص اگر کسی مسئلے پر علمی سوال کرے تو اسے ایمان کے کمزور ہونے سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ میں نے خود ایسے لوگوں کو دیکھا ہے جو اپنے دوستوں سے صرف اس لیے دور ہو گئے کیونکہ ان کی سیاسی یا مذہبی رائے مختلف تھی۔ ایک بزرگ شخص سے گفتگو کے دوران انہوں نے کہا، “بیٹا! پہلے لوگ بات سنتے تھے، اب صرف جواب ڈھونڈتے ہیں۔” یہ جملہ ہمارے زمانے کی فکری تنزلی کا بہترین خلاصہ ہے۔ اختلاف برداشت نہ کرنے کی یہ عادت انسان کو اپنے ہی خیالات کا غلام بنا دیتی ہے۔ اور جب ذہن غلام بن جائے تو علم، ترقی اور فہم سب ختم ہو جاتے ہیں۔

اس صورتحال کے سماجی اثرات نہایت خطرناک ہیں۔ جب سوچنا جرم بن جائے تو معاشرہ ترقی نہیں کرتا، بلکہ جمود کا شکار ہو جاتا ہے۔ نوجوان نسل، جو تحقیق اور جدت کی قوت رکھتی ہے، وہ بھی دو انتہاؤں میں بٹ جاتی ہے۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جو ہر چیز کو بغیر تحقیق کے قبول کرتے ہیں، اور دوسری طرف وہ جو ہر بات کو بغیر سمجھے رد کرتے ہیں۔ یہ دونوں رویے خطرناک ہیں کیونکہ دونوں میں عقل کی آزادی نہیں۔ فکری آزادی وہ دولت ہے جس کے بغیر کوئی قوم علم، ادب یا سائنس میں ترقی نہیں کر سکتی۔ دنیا کی تمام بڑی ایجادات اور علمی تحریکیں اسی وقت ممکن ہوئیں جب لوگوں نے سوال کرنے کی ہمت کی۔ لیکن آج کے دور میں سوال اٹھانا گستاخی سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم خود کو بدلنے کے بجائے دوسروں کو الزام دیتے ہیں۔ اس فکری بیماری نے ہمیں اجتماعی طور پر مفلوج کر دیا ہے۔

آخر میں، اس مرض کا علاج بھی سوچنے میں ہی پوشیدہ ہے۔ انسان جب اپنے خیالات کو مقدس سمجھنا چھوڑ دے اور دوسروں کی بات سننے لگے تو فکری صحت بحال ہو سکتی ہے۔ اختلاف کو دشمنی نہیں بلکہ سمجھ بوجھ کا ذریعہ سمجھنا چاہیے۔ ہمیں یہ سیکھنا ہوگا کہ کسی بھی معاملے پر رائے دینے سے پہلے تحقیق کریں، جذبات نہیں بلکہ عقل سے فیصلہ کریں۔ زندگی کی خوبصورتی اسی میں ہے کہ ہر شخص الگ سوچ رکھتا ہے۔ اگر سب ایک ہی زاویہ اختیار کر لیں تو ترقی کا دروازہ بند ہو جائے گا۔ ہمیں اپنی گفتگو، تعلیم اور رویوں میں برداشت اور فہم کی روشنی واپس لانی ہوگی۔ سچ یہ ہے کہ فکری آزادی انسان کی سب سے بڑی طاقت ہے، اور جب ہم دوبارہ سوچنا سیکھ جائیں گے، تبھی ہم انسان کہلانے کے اصل حقدار بنیں گے۔


یہ فکری مرض — جس میں لوگ سوچنے کے بجائے صرف کسی چیز کے “حق” یا “خلاف” ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں — دراصل ذہن کی کاہلی اور روحانی جمود کی علامت ہے۔ یہ بیماری سیاست سے شروع ہو کر تعلیم، مذہب، سماج، اور فرد تک پہنچ چکی ہے۔ اس کا واحد علاج یہ ہے کہ ہم دوبارہ سوچنے کی عادت ڈالیں، اختلاف کو عزت دیں، اور اپنی رائے کے ساتھ دوسروں کی رائے کو بھی جگہ دیں۔ جب انسان اپنی رائے کو مطلق سچ ماننا چھوڑ دے، تو علم اور فہم کے دروازے خود بخود کھل جاتے ہیں۔ یہی شعوری بیداری انسانیت کو دوبارہ اس مقام پر لے جا سکتی ہے جہاں سوچ ایک روشنی بن کر دل و دماغ کو منور کرتی ہے، نہ کہ ایک ہتھیار بن کر دوسروں کو زخمی کرتی ہے۔ یہی وہ منزل ہے جہاں انسان آزاد، باخبر اور سچا بن کر اپنی اصل پہچان واپس حاصل کر سکتا ہے۔


فرقان کاظم

Recent Posts

اسپائر اکیڈمی، واہ ماڈل ٹاؤن کیمپس میں سرٹیفکیٹ تقسیم تقریب

واہ کینٹ ( عمیر بھٹی) اسپائر اکیڈمی واہ ماڈل ٹاؤن کیمپس میں انگلش لینگویج کورس…

46 minutes ago

ہمیں اولاد کو بتانا ہو گا والدین کی اہمیت اور خاندانی نظام کیا ہے،امیر عبدالقدیر اعوان

حضرت آدم ؑ کا وجود جب مٹی اور گارے کے درمیان تھا میں (حضرت محمدﷺ)…

4 hours ago

راوت پولیس اہلکاروں پر شہری سے تشدد اور رقم ہتھیانے کا الزام

راولپنڈی (حماد چوہدری) راولپنڈی کے رہائشی شہری علی امیر خان نے ایس ایچ او تھانہ…

4 hours ago

پنجاب میں عام بلدیاتی انتخابات مارچ 2026 میں کرانے کا فیصلہ

اسلام آباد (حذیفہ اشرف) — الیکشن کمیشن آف پاکستان نے صوبہ پنجاب میں عام بلدیاتی…

5 hours ago

جسٹس اعجاز اسحاق کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر

اسلام آباد (نمائندہ پنڈی پوسٹ)اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان کے خلاف…

5 hours ago