پوٹھوہار کی زمین دالیں‘مونگ پھلی‘باجرہ‘ گندم، مکئیودیگر فصلوں کیلئے موزوں ترین ہے
موجودہ دور میں ہر شخص مہنگائی کا رونا رو رہا ہے کہ آمدنی کم اور اخراجات زیادہ ہیں۔کسی حد تک یہ عالمی سطح پہ بات قابل قبول ہے لیکن ہم پاکستان کی آبادی دیکھیں تو اکثریت دیہی علاقوں میں آباد ہے اور پنجاب سمیت پوٹھوہار کا خطہ اب بھی زراعت، کھیتی باڑی اور مال مویشی پہ انحصار کئے ہوئے ہے۔ خوشی غمی اور عید الضحی پر جانور بیچ کر اخراجات نکال لئے جاتے ہیں۔ جانوروں کی افزائش براہ راست زمین داری، کاشتکاری اور چراہ گاہوں کی بدولت ہے۔ راقم کو اچھی طرح یاد ہے کہ مقامی سطح پہ کھیتی باڑی کیلئے بیل جوتنے اور ہر قسم کی فصل بونے میں ہمارے باپ دادا کسی قسم کا عار نہ سمجھتے۔ صبح سویرے کھیتوں میں جانا لازم تھا۔ ہر فصل کیلئے زمین تیار کرنا مشن ہوتا تھا۔ اس محنت کا نتیجہ یہ تھا ہر گھر مختلف اقسام دال، باجرہ جوار، لہسن، سرسوں وغیرہ ہمہ وقت موجود رہتی تھی۔ بازار پہ انحصار کم تھا
جوں جوں ترقی ہوئی، پیسہ آیا اور سہل پسندی نے کسان کے شب و روز بدل کر رکھ دئیے۔ آہستہ آہستہ زمین سے دوری اور مختلف فصلیں کاشت کرنا ختم کردی۔ زمین سے دوری کیوجہ آجکل ذرخیز زمین میں جنگلی بوٹی نے ڈیرے جما لئے ہیں۔ جو زمین کیساتھ ماحول اور دیگر پودوں کی نشوونما بھی متاثر بلکہ انکو ختم کررہی ہے۔ گیس کی آمد نے اس ناسور کو مزید بڑھاوا دیا ہے آج یہ بوٹی پورے پاکستان میں پھیل چکی ہے مونگ پھلی نقد آور فصل ہے جو آج کہوٹہ اور کلرسیداں میں برائے نام رہ گئی ہے اور جو لوگ کاشت کررہے ہیں ان سے فائدہ معلوم کیاجاسکتا ہے، البتہ ہاتھ سے کام نہ کرنے کی اجرت زیادہ ہونے سے منافع کم ہے تاہم اب بھی یہ فصل پورے سال کا خرچ نکالتی ہے
گندم کے ساتھ یا الگ سرسوں کا دلفریب منظر شاید اپ بھول سکیں لیکن اب یہ تصاویر میں رہ گیا ہے۔ کیونکہ ہماری ترجیح اب صرف گندم رہ گئی ہے اور وہ بھی اپنی ضرورت کی۔ پچھلے دنوں کسان اتحاد نے حکومت سے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم بھی اپنی ضرورت کی فصل کاشت کریں گے۔ یہ فیصلہ گندم کا قحط پیدا کرسکتا ہے گوجر خان روات کلرسیداں اور کہوٹہ (پہاڑی ہونے کی بنا پہ مکمل رقبہ کاشت کے قابل نہیں) کی زمین تقریباً ہر قسم کی فصل کیلئے موضوں ترین ہے۔ کسانوں کی زمین کی طرف واپسی معاشی مسائل حل کرنے کیساتھ ساتھ مہنگائی کا جن بھی قابو کرسکتی ہیں۔ گاؤں دیہات میں سبزیاں دالیں اور فصل اگر ہر گھر سے کچھ اپنی ضرورت پوری کرکے باقی آبادی کو بھی دے سکتے ہیں جس سے منڈی اور بازاروں میں رش کم ہوگا۔ مانگ میں کمی کے باعث ریٹ گر جائیں گے۔ سرسوں کا تیل کھانے کے متبادل طور استعمال کرنے سے بازار گھی تیل کی مانگ بھی متاثر ہوگی۔ فی کسان اگر اپنے ساتھ اگر پانچ سے دس گھروں کی خوراک مقامی طور پہ پیدا کردے تو صرف ایک دو سال میں بڑی تبدیلی ممکن ہے اور اس کیلئے آج کے نوجوان کو زراعت کی طرف راغب ہونا پڑیگا۔ صوبائی اور ضلعی حکومت چھوٹے ڈیم بنانے کیلئے مدد کرسکتی ہے جو پانی کی کمی دور کریگا۔ ڈیری فارمنگ اور ماہی پروری کا کاروبار بھی چمک سکتا ہے اگر اپ بھی کچھ مرلے کنال یا ایکڑ کے مالک ہیں تو خود یا ٹھیکے پہ اپنی زمین لازمی کاشت کریں اور ملکی معیشت میں اپنا کردار ادا کریں
عثمان مغل
ایس ایچ او تھانہ سول لائنز کی کاروائی،چوری کی متعدد وارداتوں میں ملوث ہیر گینگ…
کراچی(حذیفہ اشرف سے)عالمی کیبل کنسورشیم کی جانب سے سمندر میں موجود فائبر آپٹک کیبل کی…
لاہور (حذیفہ اشرف سے)تحریکِ لبیک پاکستان (TLP) نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے…
اسلام آباد(اویس الحق سے)فلسطین کے صدر محمود عباس نے وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کی…
وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز الیکٹرو بس سروس، سڑکوں کی مرمت، خصوصی صفائی مہم اور…
اٹک میں سالانہ بڑی گیارہویں شریف کے موقع پر آستانہ عالیہ خوشبوئے مدینہ نقیبیہ میں…