ابھی تک شوشل میڈیا کے عزائم پوشیدہ ہیں ابھی فیس بک ٹیوٹر وٹس ایپ لنک ڈاؤ ن لوڈ اور ایسی کئی نئے ناموں سے موبائل فون استعمال کرنے والوں کو رجسٹرڈ کیا جا رہا ہے گوگل کو اور فیس بک کو دیگر سرچ انجن کمپنیوں کے یا ہم رابطوں پر بھی کسی کی دسترس ہے 6ارب لوگوں اور ان کے خاندانوں بیوی بچوں بھائیوں بہنوں عزیز اقارب کو رجسٹرڈ کر کے ان کا مخصوص شناخت کوڈ نام اور ایک الگ سے آئی ڈی میں چلنے والا یہ عمل ابھی تک محض فری کی تفریح کا سبب ہے بے شک نجی زندگی میں انسانی رویوں پر پڑنے والے منفی اثرات سامنے آئے ہیں ازدواجی زندگی کو کافی نقصان ہوا ہے جس یورپ امریکہ زیادہ متاثر ہوئے ہیں لیکن کچھ ایک کام اچھے بھی فروغ پائے ہیں جن سب سے زیادہ فائدہ اردو زبان کے یوزرز کو ہوا ہے چونکہ پہلے اردو ادب کی رسائی تک ایک بہت ہی بے معنی جدوجہد کے بعد بھی آپکو معیاری اسلوب دستیاب ہو مشکل تھا اب یہ کام بہت آسان ہو گیا ہے مذہبی حوالے سے بہت سے تحفظات کے ساتھ ساتھ اچھے رویوں نے بھی کام کیا ہے اسلامک لٹریچر تک لوگوں ایسی رسائی نہیں تھی جیسی اب دیکھنے میں آ رہی ہے دنیا کے بہت سے ممالک ایسے اپنے الگ ضابط قانون کے تحت بہت سے کاموں کو ظاہر نہیں کرتے تھے اور وہ کام ترقی حادثے انقلاب اور دیگر اندرونی مسائل میڈیا پر عام طور پر نہیں آتے تھے جو کہ اب ایک بہت ہی آسان ذریعہ سے دیکھنے میں آتے ہیں اس کی حالیہ مثال تارکین وطن ڈوب کر جاں بحق ہونے والے 3 سالہ بچے کی ہے تصویر کا اثر میڈیا پر 70 کی دہائی میں بھی کچھ ایسا ہی تھا جس کی مثال ویت نام کی جنگ میں ایک لڑکی کی تصویر ہے جس ردعمل نے جنگ بندی کا کام کیا لیکن جہاں لاکھوں نیٹ یوزر اپنے دوستوں خاندانوں اور بیرونی ملک انجان لوگوں سے بات کرتے ہیں کاروبار کرتے ہیں لین دین کرتے ہیں وہاں ہی کچھ موقع پرست لوگوں نے منفی رویوں کے فروغ کو ابھار ا ہے اس پر پہلے سے قانون اور ضابطہ موجود ہیں کہ کسی فحش لٹریچر پر پولیس یا کسی دوسرے قانون نافذ کرنے والے ادارے کے کیا اختیارات ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ حالات کے تحت کسی بھی قسم کے مقناطیسی معموری جس میں عریاں لٹریچر یا تصاویر موجود ہوں چاہے موبائل فون ،ٹیب یا کسی بھی قسم کی ہاڑ ڈ ڈسک یا معموری کارڈ برآمد ہونے پر ان ضابطہ قوانین کے تحت قانونی کاروائی عمل میں لانا ضروری ہے تاکہ بے راہ روی کے ایسے ذارائع کے سدباب ہو سکے اور ساتھ ہی ان تما م نیٹ یوزرز کی آگا ہی کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ اسے مفت تفریح سمجھ کراپنی پوری فیملی ہسٹری اور انتہائی نجی قسم کی معلومات ،تصاویر کو فیس بک ،ٹویٹر اوروٹس ایپ اور دیگر اپلیکیشنز پر اپلوڈ کرنے سے اجتناب کریں فیس بک کے تمام تر معاہدے کو پڑھے بغیر ہی ہم قبول کر لیتے ہیں جسے ہماری کال ہسٹری اور دیگر سم میں موجود ناموں کی فہرست بمع ریکارڈ فیس بک دیکھنے کاحق مجازرکھتی ہے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ فیس بک کے عزائم کھل کر کب سامنے آئیں گے لیکن اب تک یہ ایک جنون اور نشے کی طرح پوری قوم پر مسلط ہے جو کہ تشویش ناک امر ہے ۔{jcomments on}
126