سوشل میڈیا کا دور،والدین کو ہوشیار رہنا ہو گا

جہاں انٹرنیٹ نے دنیا کے مابین رابطوں کی دوری کے فاصلوں کو مٹا دیا ہے وہاں اس کے نقصانات بھی معاشرے اور نوجوان نسل کی اخلاقی تباہی کی صورت میں سامنے آ رہے ہیں سوشل میڈیا خاص کر فیس بک ٹک ٹاک جیسی ایپ کے استعمال سے معاشرتی برائیاں جنم لے رہی ہیں مگر اسکے باوجود نقصانات کی پرواہ کیے بغیر بڑا ہو یا چھوٹا سبھی سوشل میڈیا کے سحر میں مبتلا ہیں تاہم کم عمری میں بچوں کیلیے موبائل فون اور انٹرنیٹ کے استعمال کے نقصانات بڑی عمر کے افراد کی نسبت کہیں زیادہ ہیں خاص کر نوجوان نسل کیلیے سوشل میڈیا کا استعمال زیادہ نقصان دہ ہے سوشل میڈیا پر جہاں مفید معلومات تک رسائی ممکن ہے وہاں اخلاقی بے راہ روی فسادجھوٹ فحش گوئی عریانی اور اکیلے پن جیسے عوامل بھی کارفرما ہیں موجودہ دور میں سمارٹ فون کی ایجاد اور انٹرنیٹ تک رسائی کے پیش نظر نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اپنا قیمتی وقت انٹرنیٹ سوشل میڈیا پر صرف کرتی ہے جس سے ان کی ذہنی اور اخلاق نشوونما پر اسکے منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں تاہم بحثیت والدین اور استاد ہم انٹرنیٹ کے نقصانات سے بچنے کے حوالے سے اپنے بچوں اور بچیوں کی تربیت میں غفلت کے مرتکب ہورہے ہیں بلکہ مہنگا موبائل اپنے اور اپنے بچوں کے ہاتھ میں دیکھ کر ہم فخر محسوس کرتے ہیں والدین اور اساتذہ کیساتھ معاشرے کے ہر فرد کو انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنے بچوں کو سمارٹ موبائل فون استعمال کی روک تھام کے حوالے اقدامات کرنا ہونگے جس سے نوجوان نسل کو سوشل میڈیا کے منفی استعمال و غیراخلاقی سرگرمیوں سے روکا جا سکے۔سب سے پہلے ہمیں اپنے گھر کے ماحول میں تبدیلی لانا پڑے گی عملی زندگی میں اسلامی تہذیب وتمدن کا رواج عام کرنا ہوگا اور تنوع میں اتحاد کی مضبوط ثقافتی روایات قائم کرنا ہونگی بچے اور بچیوں کو صوم صلوۃ کی پابندی اور آداب معاشرت کے اصول سکھانا پڑیں گے دنیا میں بحثیت مسلمان ہم نے احکام خداوندی کے تابع رہ کر زندگی کیسے بسر کرنی ہے اور دنیا میں انسان کی آمد و تخلیق کا مقصد کیا ہے اس بارے میں بچوں کی ذہنی نشوونما پر توجہ دینے کی ضرورت ہے روزمرہ زندگی میں ایک دوسرے سے بات چیت اٹھنے بیٹھنے کے آداب والدین کی اطاعت وفرمانبرداری بڑوں کا احترام اساتذہ کی عزت اسلامی معاشرت کی وضع قطع اور نوجوان نسل کی اخلاق وکردار کی تربیت پر دھیان دینا ہوگا گھر اور سوسائٹی بچوں کے اخلاق بگاڑنے اور سنوارنے میں بڑا اہم رول ادا کرتے ہیں اگر آپکے گھر کا ماحول اور سوسائٹی میں اٹھنے بیٹھنے کی محفل اچھے باکردار اور سلجھے لوگوں کیساتھ ہوگی تو اسکے اثرات آپکی عملی زندگی میں بھی نمایاں نظر آئیں گے اگر محفل بری ہوگی تو اسکے اثرات بھی منفی ہونگے سوشل میڈیا کی اجنبی دوستیاں رشتوں میں دوریاں پیدا کرتی ہیں اور تنہائی بڑھاتی ہیں،آج کل انٹرنیٹ کے زریعے سوشل میڈیا پر دوستی کرنے والی ویب سائٹ دستیاب ہیں جو کم عمر نوجوانوں کے مابین رابطے کا ایک انتہائی خطرناک زریعہ ثابت ہو رہی ہیں جس سے نوجوان نسل والدین کی حکم عدولی کرنے پر آمادہ ہے یہ رابطے بظاہر تو بڑے دلفریب لگتے ہیں مگرحقیقت اسکے برعکس ہوتی ہے کم عمری اور انجانے میں زندگیاں تباہ اور خاندان ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتے ہیں والدین سے گزارش ہے کہ وہ اپنے بچوں اور بچیوں کو سمارٹ فون سے دور رکھیں زیر تعلیم بچوں پر کڑی نظر رکھیں سکول کالجز میں زیر تعلیم بچوں اور بچیوں کی تعلیمی سرگرمیوں کے حوالے سے ماہانہ کی بنیاد پر تعلیمی اداروں میں خود جاکر انکی کارگردگی چیک کریں اپنے بچوں کو انٹرنیٹ، کمپیوٹر، موبائل فون اور الیکٹرونک میڈیا سے دور رکھیں بلکہ انکی سوسائٹی پر بھی نظر رکھیں والدین کو چاہیے کہ کم عمر بچوں کے سامنے حساس نوعیت کے معاملات پر گفتگو کرنے سے گریز کریں اور ایسی تمام اشیا ء اور معلومات انکے سامنے شیئر نہ کریں جو انکے لیے نقصان دہ ہوں بچوں اور بچیوں کو قرآنی تعلیمات اور اسوہ حسنہ پر عمل کرنے کی تلقین کریں تاہم بہتر یہ ہے کہ آپ بچیوں کو گھر پر قرآن پاک پڑھانے کا اہتمام کریں اچھے لوگوں اور گھرانوں سے معاشرتی میل جول رکھیں اور اخلاقی بے راہ روی کا شکار خواتین وحضرات سے کنارہ کشی اختیار کریں کیونکہ یہ آپکے خاندان اور بچوں کی زندگیوں میں ایسا زہر گھول دینگے جسکا علاج آپکی پہنچ سے کوسوں دور ہوگا پاکستان میں لبرلز نام کا ایک ایسا طبقہ موجود ہے جو دین اسلام پر عمل کرنے کی بجائے شخصی آزادی کا قائل ہے دوسرے لفظوں میں لبرل ازم ایک ایسی سوچ ہے جس میں ہر فرد اپنی زندگی اپنی مرضی سے جینا چاہتا ہے اور بحیثیت فرد انفرادی آزادی اور ذاتی زندگی کے عروج وزوال میں کسی بیرونی مداخلت کو تسلیم نہیں کرتا خواہ یہ مداخلت مذہب کی طرف سے ہو یا ریاست کی طرف سے ہوفرد اپنی ذاتی اور اجتماعی زندگی میں بالکل آزاد ہے یعنی انسان کا جو جی چاہے کرے مگر دوسروں کی آزادی میں مداخلت نہیں ہونی چاہیے لبرلزم کے حامیوں کو اس بات کی کھلی اجازت ہے کہ انٹرنیٹ سوشل میڈیا ٹی وی ڈراموں اشتہارات اور فلموں کے زریعے بے حیائی کا پرچار کریں جس سے نوجوان نسل کی زندگیاں تباہ ہوں معاشرہ اور خاندانی نظام غیر مستحکم ہو مگر دین اسلام اس بات کی قطعا اجازت نہیں دیتا کہ جب آپ خدا کی واحدنیت صدق دل سے قبول کرلیں تو پھر آپکو احکام خداوندی کے آگے جھکنا پڑے گا قرآنی تعلیمات اور اسوہ حسنہ کی پیروی میں تمام زندگی بسر کرنا ہوگی اور یہی حقیقی اور انسانی فلاح کا حقیقی راستہ ہے جسکی منزل خیر اور بھلائی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں