سوشل میڈیا کے غلبے نے روایتی اخبارات کے کردار اور اہمیت کو بری طرح متاثر کیا ہے، یہاں تک کہ اخبار اب بیشتر افراد کے لیے صرف ایک تاریخی حوالہ بن کر رہ گیا ہے۔ ماضی میں اخبار صرف معلومات کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک مکمل تجربہ ہوتا تھا — صبح کی چائے کے ساتھ کاغذ کی مہک، اداریے کی گہرائی، اور خبروں کی معتبر ترتیب۔ مگر اب وقت بدل چکا ہے۔
آج ہر شخص کے پاس ایک موبائل فون ہے جو خبروں کا 24/7 ذریعہ بن چکا ہے۔ صارفین اب انتظار نہیں کرتے — سوشل میڈیا پر پل بھر میں خبر آتی ہے، ویڈیو، تصویر، تبصرہ اور عوامی ردعمل سب کچھ ساتھ ہوتا ہے۔ فیس بک، ٹوئٹر (ایکس)، یوٹیوب، انسٹاگرام اور واٹس ایپ جیسے پلیٹ فارمز نے خبروں کو جامد تحریر سے براہِ راست تعامل میں بدل دیا ہے۔
اخبارات کی تاخیر، محدودیت اور یک طرفہ پیش کش نے انہیں دورِ حاضر کے اندازِ خبر رسانی سے باہر کر دیا۔ اب صارف نہ صرف خبر حاصل کرتا ہے بلکہ اس پر اپنا ردعمل بھی دیتا ہے، ویڈیوز شیئر کرتا ہے، رائے قائم کرتا ہے اور دوسروں کی رائے جانتا ہے — اور یہی وہ آزادی ہے جس نے اخبار کی ایک طرفہ دنیا کو پیچھے چھوڑ دیا۔
اس کے علاوہ سوشل میڈیا نے ہر فرد کو شہری صحافی بنا دیا ہے — اب صرف رپورٹر ہی نہیں، بلکہ کوئی بھی فرد خبر کا ذریعہ بن سکتا ہے، ویڈیو یا تصویر اپلوڈ کر کے پورے ملک کو خبر دے سکتا ہے۔ اس آزادی نے روایتی میڈیا کو نہ صرف چیلنج کیا بلکہ کئی معاملات میں پیچھے بھی دھکیلا۔
تاہم، یہ بھی حقیقت ہے کہ روایتی اخبار اپنی مصداقیت، گہرائی اور تفصیل میں آج بھی الگ مقام رکھتا ہے۔ مگر سوشل میڈیا کی برق رفتاری، انٹرایکٹو طرز، اور رائے عامہ کی طاقت نے اس کی جگہ لے لی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کی نسل اخبار کے بجائے انسٹاگرام کی اسٹوری اور ٹوئٹر کے تھریڈز کو خبر مانتی ہے۔
اخبار اب ایک روایت ہے، جبکہ سوشل میڈیا ایک حقیقت۔
اور وقت ہمیشہ حقیقت کے ساتھ ہوتا ہے۔