سوشل میڈیا بے لگام گھوڑا

قارئین کرام! کسی بھی ملک کی ترقی میں آئی ٹی شعبہ کا کردار اس وقت جس اہمیت کا حامل ہے اس سے انکار ممکن نہیں، چند سال قبل تک جن لوگوں نے گھروں کے ٹیلی ویژن غیر شرعی قرار دے کر تڑوائے تھے اب انہوں نے اپنے چینل کھول رکھے ہیں اور ہمہ وقت وہاں سکرین پر نظر آتے ہیں یعنی ذرائع ابلاغ کا جو بھی طریقہ استعمال کیا جائے وہ قانونی و شرعی طور پر جائز ہے ذرائع ابلاغ میں ایک اہم اور لازمی چیز اس وقت سوشل میڈیا ہے جس کو ٹی وی چینلز‘ نیوز چینلز والے بھی تمام وسائل ہونے کے باوجود استعمال کرتے ہیں، اس کا مثبت استعمال فائدہ مند ہے اور اس کا منفی استعمال نقصان دہ ہے‘ جیسا کہ گزشتہ دنوں اسلام آباد سے معروف صحافی محسن بیگ کی گرفتاری سامنے آئی ہے سوشل میڈیا اس بے لگام گھوڑے کی طرح ہے جس کا کوئی والی وارث نظر نہیں آتا، پورے پاکستان اور بالخصوص گوجرخان تحصیل میں اس کو انھے واہ استعمال کیا جا رہا ہے، ان پڑھ افراد بھی اینڈرائیڈ فون کا استعمال کر کے سوشل میڈیا کو بطور تماشا استعمال کرتے ہیں، جبکہ پڑھے لکھے افراد بھی اس کامثبت اور منفی استعمال کرر ہے ہیں‘ وکلاء‘ صحافی‘ سیاسی، مذہبی، سماجی، سرکاری شخصیات اور اداروں کے بارے میں لغو گفتگو کر کے اور الزامات سے بھرپور ویڈیوز اپلوڈ کی جاتی ہیں اور باوقار اور باعزت لوگوں کی پگڑیاں اچھالی جاتی ہیں، اسی سلسلے کی ایک کہانی گزشتہ دنوں شرقی و غربی گوجرخان کی لاکھوں آبادی کے واحد گرلز کالج سے متعلق منظر عام پر آئی جس میں ایک خاتون سوشل میڈیا پر اپنی بیٹی کیساتھ گرلز کالج کی پرنسپل، کلرک و ٹیچرز کے بارے میں الزام تراشی کرتی نظر آئی، پیسے کھانے کا الزام لگایا گیا، جب میری نظر سے ویڈیو گزری تو راقم نے اس پہ اپنا ردعمل دیا اپنی رائے دی جو میری دانست کے مطابق آج بھی ٹھیک ہے اور اہل عقل و دانش افراد میری اس رائے سے ضرور متفق ہیں، میری رائے اور اختلاف پر وہ خاتون سیخ پا ہو گئیں، اگلے روز راقم نے اس معاملے کی مزید تحقیق کیلیے گرلز کالج رابطہ کیا تو معلوم پڑا کہ یہ خاتون صرف پروٹوکول نہ ملنے کی وجہ سے سیخ پا تھیں، انکی بیٹی اور دیگر طالبات کا داخلہ اسی دن بھیج دیا گیا تھا لیکن داخلہ چلے جانے کے باوجود، پروٹوکول نہ ملنے کی وجہ سے اس خاتون نے الزامات لگائے جنکی کسی سطح پر کوئی سچائی نہیں اور نہ اس خاتون نے کوئی ثبوت فراہم کئے۔ مزید یہ بھی معلوم ہوا کہ اس خاتون کی بیٹی اس کالج کی موجودہ سیشن میں طالبہ ہی نہیں ہے بعد ازاں اس خاتون نے سوشل میڈیا پر میرے خلاف طوفان بدتمیزی شروع کیا جس کے بارے میں پوٹھوہار پریس کلب نے اپنا اجلاس بلا کر مذمت کی اور آئینی و قانونی راستہ اپنانے کا اعلان کیا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ڈگری کالج گوجرخان میں تقریبا پچیس سو کے لگ بھگ طالبات زیرتعلیم ہیں‘ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صرف ایک طالبہ کو داخلے کا مسئلہ اتنی سنگینی کیساتھ کیوں درپیش آیا؟ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ داخلہ چلے جانے کے باوجود خاتون نے بیٹی کیساتھ سوشل میڈیا پر آ کر الزامات کیوں لگائے؟ کیا اس کا مقصد بلیک میلنگ تھا؟ یا پروٹوکول نہ ملنے کا رنج تھا؟ گرلز کالج میں پچیس سو طالبات زیرتعلیم ہیں تو کیا کالج انتظامیہ ہر طالبہ کے والدین کو پروٹوکول دیتی پھرے؟کیا کسی عزت دار، خاندانی، باحیا خاتون کو زیب دیتا ہے کہ اپنی بیٹی کو ساتھ لے کر سوشل میڈیا پر بیان بازی کرے؟ ہر باشعور شخص یہی کہے گا کہ ایسا کوئی عزت دار اور خاندانی خاتون نہیں کر سکتی تو اس کا دوسرا پہلو یہی ہے کہ اس خاتون کا مقصد محض بلیک میلنگ تھا۔۔ جس میں وہ قطعی طور پر کامیاب نہیں ہوئی اور سوشل میڈیا پر طوفان بدتمیزی برپا کر کے اس نے اپنی تربیت کا عملی نمونہ پیش کیا۔ہمارے ایک صحافی دوست نے بتایا کہ یہ خاتون ان کے پاس بھی گئی تھی کہ میرا موقف ریکارڈ کر کے چلائیں، جس پر صحافی نے ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے کہا کہ میں آپکا بھی موقف لوں گا اور بعد ازاں کالج پرنسپل کا بھی موقف لوں گا تاکہ دونوں رُخ عوام کے سامنے ہوں جس پر خاتون نے اس صحافی کو فورس کرنا شروع کر دیا اور بضد رہیں کہ صرف میرا موقف لیا جائے اور میں جو کہہ رہی ہوں وہی سچ ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس خاتون کا مقصد صرف بلیک میلنگ تھا۔جب مذکورہ خاتون کو پریس کلب کے پلیٹ فارم سے بھرپور جواب ملا جس کی اس کو قطعاً توقع نہیں تھی تو خاتون نے جگہ جگہ جا کر رونا دھونا شروع کیا کہ میرے ساتھ صحافی زیادتی کر رہے ہیں حالانکہ موصوفہ نے زیادتی کا آغاز خود کیا تھا۔ پھر ایک شخص کا ویڈیو بیان بھی سامنے آیا ہے جس نے سستی شہرت کیلیے شاید اپنا ضمیر تک بیچ رکھا ہے۔ اس شخص کی تعریف کیلیے اتنا کافی ہے کہ وہ جس کے خلاف آج تک بولا اللہ نے اسے مزید عزتیں دیں اور جس کے حق میں بولا پھر زمانے نے اسے رُسوا ہوتے دیکھا۔ راقم کیخلاف بھی اس نے باضابطہ مہم چلائی تھی جس میں وہ ناکام رہا کیونکہ اس کا کام ہی بلیک میلنگ کرنا ہے اور مجھے اللہ کے کرم سے آج تک بلیک میل نہیں کیا جا سکا۔پوٹھوہار پریس کلب کی ایک تاریخ ہے، ہم اخلاق کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، ہم اپنے آئینی و قانونی حقوق کا استعمال کرتے ہوئے اپنے دفاع کے لیے ہر ممکن قدم اٹھائیں گے اور سوشل میڈیا پر سرگرم شرپسند عناصر بلاتفریق مرد و خواتین کیخلاف بھرپور کارروائی کریں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں