گھر کے دروازے مضبوط، کھڑکیوں پر جالیاں، باہر کی دنیا سے ہر ممکن بچاؤ۔ باپ نے بیٹے، بیٹیوں اور بیوی کو ہر طرح کی آفت سے بچانے کے لیے دیواریں تو کھڑی کر دیں، لیکن وہ یہ بھول گیا کہ فتنے اب دروازے سے نہیں آتے، بلکہ ہاتھوں میں پکڑے چھوٹے سے اسکرین کے ذریعے داخل ہوتے ہیں۔
ساری رات فون پر باتیں، پہلے تجسس کی انتہا، ہر میسج پر دل کا دھڑکنا، ماں اگنور، باپ اگنور، تعلیم اگنور، پھر ملاقاتیں، رنگین نظارے، عزت لوٹ لینا جھوٹی باتوں میں ڈال کر جھوٹے سہارے دے کر نفس کے مزے لینا۔پھر لڑائی جھگڑے کی شروعات،پھر بریک اپ،پھر پیچ اپ، دوماہ بعد پھر بریک اپ، پھر پیچ اپ پھر اداسی کا اشتہار بن کر پھرنا، لوگوں کو اپنی وفا اور اسکی بیوفائی کے قصے سناتے رہنا، سونے جیسے وقت کو مٹی میں ملا دینا، پہلے جینے مرنے کی قسمیں کھانا اور پھر آخر میں ایک دوسرے کو بد کردار کہہ کر اور گالیاں دے کر راستے الگ کر لینا۔
سوشل میڈیا پر اس کو آج محبت کہتے ہیں۔آج سوشل میڈیا کا جال ہر گھر میں پھیل چکا ہے۔ والدین سمجھتے ہیں کہ ان کے بچے محفوظ ہیں، کیونکہ وہ گھر سے باہر نہیں نکلتے، مگر وہ نہیں جانتے کہ پہلے تو انکے گھر کے قریبی رشتے بھتیجے، بھانجے، سالے، اس محترم شخص کے اپنے ہونیوالے داماد، اپنی بیٹی کا منگیترچاہے اپنا بھانجا بھتیجا کیوں نہ ہو وہ بھی اجنبی ہی ہے کیونکہ اس پرفتن سوشل میڈیائی دجالی دور سے گذر رہے ہیں اور اپنے پرائے اجنبی اور نامحرم خود ان کے گھروں میں بیٹھے ہیں۔ ہر لمحہ ایک نئی دوستی، ایک نیا تعلق، ایک نیا دھوکہ۔ اگر والدین میں سے سختی ہوتی ہے تو اسی گھر کے اندر سے کہتے ہیں اپنا ہی تو ہے کل کا داماد پیارا بچہ ہے عقلمند ہے کمانے والا ہے گھر کا سامان وغیرہ بغیر کہے بھی لیکے آتا ہے تو اس میں کیا قباحت ہے اور اس جوڑے کو اکیلے میں کھلا چھوڑا جاتا ہے۔
جب کوئی گڑبڑ ظاہر ہو تو والد یا اس کا بھائی برداشت نہیں کرتا یہی وہ راستہ ہے جس نے نہ جانے کتنے گھروں کو اجاڑ دیا۔ محبت کے نام پر ناجائز تعلقات، جھوٹے وعدے، عزتوں کی نیلامی، بلیک میلنگ، اور بالآخر خاندانوں کی بربادی۔ وہ بیٹیاں جو کبھی گھر کی چار دیواری میں سب سے زیادہ محفوظ سمجھی جاتی تھیں، آجکل موبائل سوشل میڈیا کے ذریعے ذلیل بلیک میل شکار ہو رہی ہیں۔ذمہ داری کس کی؟اللہ کے پیارے نبیﷺ نے فرمایا:”تم میں سے ہر شخص نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعییت اولاد کے بارے میں پوچھا جائے گا۔“ (بخاری و مسلم)والدین کی ذمہ داری صرف کھانے پینے اور کپڑے فراہم کرنے تک محدود نہیں۔ انہیں اپنی اولاد کی اخلاقی تربیت بھی کرنی ہے۔ اگر والدین نے یہ سمجھ لیا کہ ان کی ذمہ داری بس مادی ضروریات پوری کرنے تک ہے، اور اولاد کو کھلا چھوڑدیا۔ اولاد پہ نظر نہ رکھی تو یاد رکھیں والدین کی رسوائی ضرور ہوگی کہ ایک دن یہی اولاد ان کی آنکھوں کے سامنے برباد ہو سکتی ہے۔کیا کیا جائے؟بیٹیوں کو شعور دیں کہ ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی۔ موبائل سوشل میڈیا پر ملنے والے لوگ اکثر جھوٹے ہوتے ہیں، جو وقتی الفاظ سے دل بہلانے آتے ہیں اور پھر رسوائی چھوڑ جاتے ہیں۔
دوسروں کو الزام دینے کے بجائے اپنی اولاد پر نظر رکھی جائے وہ بہتر ہوگی۔ اپنی اولاد کی نادانیوں کیوجہ سے دوسروں کو تو قصور وار ٹھہرائیں لیکن۔ماں باپ خود بھی محتاط رہیں۔ اگر والدین، بھائی کنٹرول نہیں کرینگے، تو اولاد کیسے بچ سکے گی؟ حیا اور پردے کو اہمیت دیں کیونکہ سیٌِدہ کائنات سیٌِدۃُ النٌِساء بیبی فاطمہ ؓ نے اپنے آخری وقت میں اس دنیا سے جاتے وقت جو وصیت فرمائی وہ پردے کی تھی کہ میرا جنازہ رات کے اندھیرے میں اٹھایا جائے اس سے اور کیا بہتر ہوگا دینی تربیت پر توجہ دیں۔ قرآن اور حدیث کی روشنی میں بیٹیوں کو حیا، عزت اور پردے کی اہمیت سمجھائیں۔
اعتماد کا رشتہ بنائیں۔ ایسا نہ ہو کہ خوف کی دیواریں بیٹی کو والدین سے ہی دور کر دیں ذرا سی ڈھیل لاپرواہی کیوجہ سے والدین کی رسوائی کیساتھ آپکی بیٹی کہیں رہنے کے عزت احترام کے لائق اس دنیامیں نہ ہوگی۔ اس لڑکی کو رسوا ہونے کا ڈر اور وساوس کی بیماریوں جیسے امتحام شروع ہونگے۔ اس کے مسائل سنیں اور انہیں پیار و حکمت سے حل کریں۔
حقیقی حفاظت۔دروازے بند کرنے سے فتنے نہیں رکتے، اپنی پیاری اولاد کو موبائل سے دور رکھیں جیسے دوائیوں پر میڈیسن کمپنیز لکھتی ہیں کہ دوائی کو بچوں کی پہنچ سے دور رکھیں۔ اسی موبائل میں انتھائی گندی ننگی تصاویر، ننگی ویڈیوز ضرور ہوتی ہیں۔ آج کے دور میں دلوں کو تقویٰ سے مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر بیٹی کے دل میں حیا اور خوفِ الٰہی ہوگا، تو کوئی بھی سوشل میڈیا کا فتنہ اسے بہکا نہیں سکے گا۔ اس لیے اصل توجہ موبائل بچے بچیوں کے ہاتھوں میں دینے کے بجائے اولاد کو قرآنی تعلیمات ایمان سے جوڑنے پر توجہ دینی ہونی چاہیے۔اے باپ! حفاظت صرف دیواروں سے نہیں، دلوں سے بھی کی جاتی ہے۔ بات کڑوی ضرور ہے مگر شاید فائدہ مند ضرور ہوگی۔ کیونکہ کڑوی دوائی ہی فائدے مند ہوتی ہے