217

سورۃ فاتحہ کی فضیلت

یوں توقرآن مجیدمکمل شفاء ہے قرآن مجیدکی ہرہرسورت کی اپنی شان ہے مقام ہے مرتبہ ہے قرآن مجیدکے ہرہرلفظ پراجروثواب اورنیکی ہے لیکن کچھ سورتیں ایسی ہیں جنکی فضیلت کچھ الگ سے بیان کی گئی ہے ان میں سے ایک سورت سورہ فاتحہ ہے اس سورہ کوسورہ فاتحہ بھی کہتے ہیں

،فاتحہ الکتاب بھی،السبع المثانی بھی ام الکتاب اورام القرآن بھی کہاجاتاہے نبی اکرم شفیع اعظمﷺنے ارشادفرمایاقرآن مجیدکی سورتوں میں سورہ فاتحہ عظیم ترین سورت ہے ایک جگہ فرمایاسورہ فاتحہ میں ہربیماری کی شفائے ہے صحابہ کرام ؓ کاایک لشکرسفرپرروانہ تھا

کہ راستہ میں انکاگزرایک قبیلہ پرہوااس قبیلہ کے سردار کوبچھونے کاٹ لیادوائی وغیرہ سے جب کچھ بھی افاقہ ناہواتوقبیلہ کے لوگ صحابہ کرام کے پاس اپنی عرض لیکرآئے حضرت ابو سعید حدریؓ بھی اس لشکرمیں تھے انہوں نے سات مرتبہ اس سورہ فاتحہ کوپڑھ کردم کیاتووہ سردار ٹھیک ہوگیا

انہوں نے تیس بکریاں صحابہ کرام کے حوالہ کیں صحابہ کرام جب آقادوجہاں کے سامنے پیش ہوئے توتمام تفصیلات سے آگاہ کیا تو نبی اکرم شفیع اعظمﷺنے فرمایامیراحصہ بھی رکھ لوایک اورمقام پرنبی کریم روف الرحیم ﷺ نے ارشادفرمایاکہ سورہ فاتحہ کی نظیر ناتوتورایت میں نازل ہوئی ناانجیل وزبورمیں سورہ فاتحہ میں سات آیات ہیں پہلی تین آیات میں اللہ رب العزت کی حمدوثنائے،

آخری تین میں انسان کیطرف سے دعاودرخواست جبکہ ایک آیت میں دونوں باتیں مشترک ہیں یہ سب رب العا لمین نے انسان کوخودسکھلایاسورہ فاتحہ میں انسان کہتاہے تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں جو تمام جہانوں کاپالنے والاہے،بڑامہربان نہایت رحم کرنے والاہے،بدلہ کے دن (قیامت)کا مالک ہے،ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ھی سے مددچاہتے ہیں،ہمیں سیدھاراستہ دکھا،ان لوگوں کا راستہ جن پر تونے انعام نازل کیا،

ناکہ ان کاجن پرتیراغضب نازل کیا گیا اورناگمراہ کا، یہ وہ اقرار وا ظہار ہے جو ہر مسلمان ہرنمازکی ہررکعت میں کرتاہے لیکن نماز میں اقرارپھرنمازکے بعدان باتوں سے اس عہدسے عملی طور پر انحراف اگرہم بحیثیت مسلمان قرآن مجید کوسمجھناشروع کردیں ان کے الفاظ پرغوروفکرکرناشروع کردیں توبہت بڑی تبدیلی ہم اپنی زندگی اوراپنے معاشرہ،اپنی نسلوں میں لاسکتے ہیں ہم اپنی راہ کوراہ راست پر لا کر درست سمت میں لے کرجاسکتے ہیں ہم ہدایت یافتہ جماعت کی پیروی کرسکتے ہیں ہم اپنے عقائدکی اصلاح کرسکتے ہیں

لیکن ہمارا بڑامسئلہ یہ ہے کہ ہم سمجھتے ہم نے دوسروں کی سمت درست کرنی ہے ہم دوسروں کوبدلنے کاجذبہ رکھتے ہیں دوسروں کے عیب بیان کرناجانتے ہیں دوسروں کوراہ راست پر لانا چاہتے ہیں دوسروں کوعملی طورپراسلام پرعمل کرتے دیکھنا چاہتے ہیں اس جستجو میں لگے رہتے ہیں کہ کچھ ہاتھ لگے

لیکن خودکوبدلنے کی کوشش نہیں کرتے اب سورہ فاتحہ کودیکھ لیں اس میں اللہ کی حمدوثناء بیان کرتے ہیں اس بات کااقرارواظہارکرتے ہیں کہ اللہ ہی ہے جوتمام جہانوں کاپالنے والاہے لیکن پھر بھی ہم رزق کی وجہ سے پریشان ہیں رزق کاوعدہ اللہ نے کیاہے ہم رزاق کوچھوڑکررزق کے پیچھے بھاگتے ہیں

پھر انسانوں کے کھانے پینے میں ملاوٹ کرکہ مال بناومہم کاحصہ بنتے ہیں اللہ تعالیٰ نہایت مہربان اوررحم کرنیوالاہے لیکن آج انسان بے رحم اور پتھردل ہوچکاہے اپنے دل میں یہ رحم وشفقت والی صفت سے محروم ہے جبکہ حدیث شریف میں 
بھی آتاہے جولوگوں پررحم نہیں کرتا اللہ بھی اس پررحم نہیں کرتا ایک دوسرے مقام پرآیاہے جورحم نہیں کرتا اس پررحم نہیں کیاجاتاپھرقیامت کے باریمیں اس رب کی عدالت ذکرجہاں ہرکسی کواپنے کئے کابدلہ ضرور دیاجائیگاکسی کیساتھ کوئی ظلم وزیادتی اورناانصافی نہیں کی جائے گی

وہاں ناسفارش چلے گی ناعذرقبول کیاجائے گاناکوئی رشوت ناپیسہ وغیرہ لیکن اس سب کوبھول کرجوجی میں آئے بلاخوف وخطرمسلمان کرتے چلے جارہے ہیں پھرہم یہ نہیں کہہ رہے کہ تیری عبادت اورتجھ سے مددبلکہ نماز میں پڑھ رہے ہیں تیری ہی عبادت اور تجھ ہی سے مددمانگتے ہیں

یعنی کہ جب کہہ دیاکہ تیری ہی عبادت اور تجھ ہی سے اس کامطلب یہ ہوا اورکسی کی ناتوعبادت کی جاسکتی ہے اورناہی کسی کومشکل کشائے حاجت روا اورمددگارماناجاسکتاہے

لیکن نماز میں اقراراوربعدازنما زاعمال وافعال میں سب کچھ ہمارے سامنے ہے اللہ کی ہی عبادت اور اللہ ہی سے مددکرنے کااقرارنمازکی حالت میں باربارکرتے ہیں لیکن کیانمازکے علاوہ بھی اس عہدپرہم قائم ہیں سوچنے کی بات ہے سیدھے راستہ کی دعا مانگتے ہیں اچھی بات ہے مگر کیا کبھی غوروفکربھی کیاکہ سیدھے راستہ پرہم نے کبھی چلنے کی کوشش بھی کی انعام یافتہ لوگوں کوتویادکرتے ہیں

لیکن ناتوانعام یافتہ کی طرح بننے کی کوشش کی اورناہی ان کے نقش قدم پر چلتے ہیں ان سب باتوں کاخلاصہ یہی ہے کہ ہم اپنی اداؤں پرغوروفکرکریں انہیں سمجھیں اور اپنے آپ کواپنی زندگی کوبدلنے کی بھی کوشش کریں جہاں تک شفائے کاتعلق ہے

اس میں بھی ہم میلوں سفرکرکہ ایساشخص تلاش کرتے ہیں جوقرآن مجیدپڑھ کرہمیں پھوک ماریں ہم خود کیوں نہیں پڑھنے کی کوشش کرتے خودکیوں نہیں پڑھ کراس سے شفائے یاب ہوناچاہتے

اگرخودپڑھیں گئے توشفائے کے ساتھ ساتھ اجروثواب بھی سمیٹیں گے لیکن اس پہلوکی طرف ہم نہیں دیکھتے ایسے کب تک چلے گاآخرکب تک؟

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں