سود کے خاتمے کے لیے اقدامات

تیس سال بعد فیڈرل شرعی کورٹ نے سود کی حرمت کے خلاف فیصلہ سنایا تو پاکستان کے عام عوام بہت خوش ہوئے، عوام کے ساتھ عام کا لفظ استعمال کرنا اس لیے ضروری ہے کہ چند خاص لوگ اس سے نا خوش بھی ہیں جو سودی کاروبار اور سودی لین دین میں ملوث ہیں۔ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے جسے فقط اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا اور یہ طے پایا تھا کہ یہاں تمام قوانین اسلام کے مطابق بنائے جائیں گے۔ لیکن صد افسوس کہ یہاں ایسا نہ ہو سکا اور غیر اسلامی قوانین بھی بنتے رہے اور ان پر سختی سے عوام کو عمل بھی کرایا جاتا رہا جو اب بھی جاری ہے۔ سود ایک ایسا گناہ اور جرم ہے جس سے اتنی سختی سے منع کیا گیا ہے کہ شاید ہی کسی اور گناہ سے اس طرح منع کیا گیا ہو۔ سودی کاروبار اور سودی لین دین اسلام میں قطعی طور پر حرام ہے۔ اللہ رب العزت نے اس گناہ سے منع کرتے ہوئے اپنے غصے کا اظہار بھی فرمایا۔ سود کے مضر اثرات دنیا میں بھی واضح طور پر محسوس ہوتے ہیں۔
وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے باوجود حکومت نے اس پر کوئی سنجیدگی نہیں دکھائی اور نہ ہی اس پر کوئی اقدامات کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ ملک کے چند نامور بنکوں نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کر دی ہے۔ جب عوام کی طرف سے ان پر تنقید کی گئی تو انہوں نے یہ وضاحت دی کہ ہم سپریم کورٹ سے اس کی وضاحت اور طریقہ کار کا تعین چاہتے ہیں لیکن حقیقت وہی ہے کہ انہیں سود کھانے کی جو لت پڑ چکی ہے اب اسے چھوڑنا انہیں مشکل محسوس ہو رہا ہے اس لیے وہ حیلے بہانے سے اس کیس کو لٹکانا چاہتے ہیں۔ کہ تیس سال پہلے لٹکا رہا تو تیس سال اور سہی۔ یہاں تھوڑا سا شریعت کی نظر میں سود کی تعریف اور اس کی حرمت کے متعلق احکامات کا مختصراً جائزہ لیتے ہیں۔
سب سے پہلے یہ جانتے ہیں کہ سود کیا ہے؟ وزن کی جانے والی یا کسی پیمانے سے ناپے جانے والی ایک جنس کی اشیاء یا روپیہ وغیرہ کا اس طرح باہم تبادلہ کرنا کہ طرفین میں سے ایک کو کچھ زائد عوض دینا پڑے، سود کہلاتا ہے۔ جسے عربی میں ربا اور انگریزی میں Usuryیا Interestکہتے ہیں۔ سود کی ہر قسم حرام ہے۔ خواہ وہ سود ہو یا سود در سود یعنیSimple Interestیا Compound Interest ہو ہر طرح کا سود حرام ہے۔ بینک میں جمع شدہ رقم پر پہلے سے متعین شرح پر بینک جو اضافی رقم دیتا ہے وہ بھی سود ہے۔
سود کی حرمت نصوص قطعیہ سے ثابت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا، ترجمہ:”اللہ تعالیٰ نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے “(سورۃالبقرہ)۔ ایسے سورۃ البقرہ میں دوسری جگہ ارشاد فرمایا: ترجمہ:”اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے“۔جب سود کی حرمت کا حکم نازل ہوا تو بہت سے لوگوں نے بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا بھی سود میں لوگوں کے پاس بقایا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے وہ لینے سے بھی منع فرما دیا۔ سود لینے اور دینے والے کے خلاف اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا اعلان جنگ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:”اگر مومن ہو وتو سود کا ما بقی چھوڑ دو اگر ایسا نہیں کرتے تو تم اللہ اور اس کے رسول سے لڑنے کے لیے تیار ہو جاؤ“ (سورۃالبقرہ)۔ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سود کی حرمت سے قبل لوگوں کو سود پر قرض دیا کرتے تھے اور ان کا کافی وسیع کاروبار تھا لیکن جب سود کی حرمت نازل ہو گئی تو رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر سود کی حرمت کا اعلان کرتے ہوئے اس پر عمل کی ابتداء اپنے گھر سے فرمائی اور ان کا سارا سود معاف
فرمادیا۔ ایسے ہی نبی کریم ﷺ نے سود لینے والے، سود دینے والے، اس معاملے کو لکھنے والے اور اس پر گواہ بنے والے پر لعنت فرمائی ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے دلائل ایسے ہیں جن سے سود کی حرمت واضح ہوتی ہے۔
اس سب کے باوجود ہمارے ملک میں سود کا کاروبار سرعام ہو رہا ہے اور حکومتی سطح پر سود کا لین دین جاری ہے۔ حکومتیں شرح سود وغیرہ کے بارے میں کتنی بے شرمی سے اعلانات کرتی ہیں۔ اسی طرح مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو ہماری حکومتیں سرعام اعلان کر کے سود پر قرض فراہم کرتی ہیں۔ پھر معیشت کا رونا روتے ہیں کہ معیشت درست نہیں ہوتی اور یہ معاشی رونا پوری دنیا میں رویا جارہاہے دنیا کے امیر ترین ممالک بھی معاشی ناانصافی سے تنگ ہیں لیکن ان کے پاس اس کا کوئی حل نہیں لیکن ہمارے پاس تو واضح حل موجود ہے۔ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ فوراً ملک سے سودی نظام کے خاتمے کے لیے اقدامات کرے اور اس میں ذرا برابر حیل و حجت سے کام نہ لے جو بھی سودی نظام کو جاری رکھنے کی ذرا برابر خواہش رکھتا ہے تواگر اس میں ہمت ہے تو اللہ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ کے لیے بھی تیار رہے۔ یقینا اتنی جرأت کسی میں بھی نہیں ہے اس لیے بھلائی اسی میں ہے کہ سود کا فوراً خاتمہ کیا جائے اور اس کے لیے ماہرین سے مشاورت کی جائے بلکہ مفتی تقی عثمانی صاحب جو جدید معاشی نظام کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے میں عالم اسلام میں شہرت رکھتے ہیں ان کی سربراہی میں ماہرین کی ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو فوری طور پر ملک سے سود کے خاتمے کے لیے سفارشات پیش کرے اور حکومت ان سفارشات پر فوری طور پر عمل کرتے ہوئے سود کی لعنت سے ملک کو پاک کر دے۔
ٍ ضیاء الرحمن ضیاءؔ

اپنا تبصرہ بھیجیں