سود خوری نے ہنستا بستا گھر اجاڑدیا

چند دن قبل کی بات ایک خاتون کی تڑپتی لاش اور ٹوٹے پھوٹے الفاظ کی ویڈیو وائرل ہوئی جس میں اس نے اپنی زندگی کے خاتمے کو سودخوروں کو زمہ دار ٹھہرایا اس کے بعد قانون جاگا لیکن ادموھ سا۔اس دلخراش واقعہ جس میں گوجرخان میں سود خوروں کی وجہ سے دو جانیں ضائع ہو گئیں، پورے شہر کو ایک عجیب خاموشی اور بے بسی میں ڈبو دیا۔ لوگ آج بھی حیرت میں ہیں کہ آخر کب تک یہ ظلم یوں ہی جاری رہے گا‘لیکن وہ ان حرامخوروں سے بھی بخوبی واقف ہیں اب ادارے صرف تماشائی بنے رہنے پر مورود الزام ٹھہرا رہے ہیں یہ کوئی آج کی بات نہیں بلکہ کئی دہائیوں پر محیط چلنے والا سلسلہ ہے۔سود کا کالا کاروبار برسوں سے پھیلتا جا رہا ہے، غریبوں کی مجبوریوں کو ہتھیار بنا کر ان کی عزت، سکون اور زندگی تک چھین لیا جارہا ہے مگر اس کے باوجود قانون کی گرفت کہیں نظر نہیں آتی۔ ہر کسی کو معلوم ہے کہ کن جگہوں پر ایسے سودی نیٹ ورک چل رہے ہیں، کون لوگ کمزور طبقات کو نشانہ بناتے ہیں، مگر کوئی ادارہ ان کے خلاف فیصلہ کن قدم نہیں اٹھاتا۔ یہی خاموشی ظالم کو مزید طاقتور اور مظلوم کو مزید بے بس کر دیتی ہے سود کی وجہ سے برباد ہونے والے خاندانوں کی کہانیاں اب اتنی عام ہو چکی ہیں کہ لوگ حیران بھی نہیں رہتے، بس افسوس کرتے ہیں اور سر جھکا کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ ایسے لگتا ہے جیسے معاشرہ اس ظلم کو معمول سمجھنے لگا ہے۔ وہ لوگ جو چند ہزار یا چند لاکھ کی فوری ضرورت کے سبب قرض لیتے ہیں، سود کے سود میں اس بری طرح جکڑے جاتے ہیں کہ ان کے لیے واپسی ممکن نہیں رہتی۔ قرض ایک دن پہاڑ بن جاتا ہے اور انہی حالات میں اکثر لوگ اپنی زندگیاں ختم کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ گوجرخان میں ہونے والا سانحہ بھی اسی بوجھ تلے کچلے جانے کی ایک اور المناک مثال ہے۔اگر بحثیت ہم مسلمان اسکو دیکھیں تو اسلام نے سود کوسختی سے حرام قرار دیا ہے کیونکہ یہ معاشرتی ناانصافی کو جنم دیتا ہے، کمزور طبقے کو روند ڈالتا ہے اور دولت کو چند ہاتھوں تک محدود کر دیتا ہے۔ قرآن مجید میں سود کو واضح طور پر ممنوع قرار دیا گیا ہے:“اللہ نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے”(البقرہ 275) اور جو لوگ سود چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوتے، ان کے بارے میں فرمایا گیا:“اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے جنگ کا اعلان سن لو”(البقرہ 279)۔ یہ وہ واحد گناہ ہے جس پر براہِ راست اللہ اور رسول ﷺ کی طرف سے جنگ کا اعلان آیا ہے۔ احادیث میں بھی سود کھانے والے، دینے والے، لکھنے والے حتیٰ کہ اس پر گواہی دینے والوں تک پر لعنت کی گئی ہے۔لیکن اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں بلکہ بسا اوقات دیدہ دانستہ طور پر گواہ بھی بن جاتے ہیں اسلام کا مقصد معاشرے کو ایسے معاشی نظام سے محفوظ رکھنا ہے جو کمزور انسان کا استحصال کرے۔ مگر جب ریاستی ادارے اپنی ذمہ داری پوری نہ کریں اور معاشرہ خاموشی اختیار کرے تو ظلم کو روکنے والے ہاتھ کمزور پڑ جاتے ہیں۔ گوجرخان کے اس واقعے نے ایک بار پھر یاد دلایا ہے کہ سود صرف ایک مالی لین دین نہیں بلکہ ایک ایسا زہر ہے جو خاندانوں کو برباد کرتا ہے اور زندگیاں نگل لیتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ادارے بیدار ہوں، قانون سختی سے حرکت میں آئے اور معاشرہ اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائے، ورنہ نہ جانے اور کتنے گھر ایسے اندھیروں میں ڈوب جائیں گے جن سے واپسی ممکن نہیں رہتی۔اتنے بڑے واقعہ کے بعد گوجرخان کی پولیس جاگی مقامی صحافی برادری کی آنکھ بھی کھل گئی یہاں پر سوشل میڈیا پلیٹ فارم سے اس حرامخوروں کو کئی ماہ سے للکارنے والے اتھرا صحافی کو بھی سلام جس نے نہ صرف انکا نام لکھا بلکہ انکی شکلیں ایکسپوزلیکن قانون مکمل اندھا رہا اور اسکی آنکھ نہ کھل سکی یہاں گوجرخان کی سیاسی قیادت پربھی سوالیہ نشان ہے جو چند ووٹوں کے لیے ایسے حرامخوروں کے خلاف کوئی اقدام کرنے سے قاصر ہیں ایک بات زہن نشین کرلیں اللہ سے اعلان جنگ کرنیوالوں کو کبھی کامیابی نہیں ملے گی نہ اس جہاں نہ اس جہاں اور ان گھرانوں کی قسمت میں بھی ماتم ہی ماتم ہے جو اللہ کی حدود قیود کو پامال کرکے کے خفیہ طور پر ایسے حرامکاروں کے ہاتھ چڑھ جاتے ہیں رب کریم ہمیں اپنی زات کر کامل یقین کی دولت عط کرے بصورت دیگر زلت آمیر زندگی بدترین موت ہمارا مقدر

آصف شاہ