216

سودکے بارے میں اسلام کاحکم

سودعربی زبان میں رباکوکہتے ہیں جسکے لغوی معنیٰ ہیں بڑھنا،اضافہ ہونا،بلندہوناجبکہ شرعی اصطلاح میں سودکہتے ہیں کسی کوقرض دیکرمشروط اضافہ یامشروط نفع لینایاکیلی(ناپ کربیچی جانیوالی چیز)یاوزنی(تول کر بیچی جانے والی چیز)کے تبادلہ میں دونوں فریقین میں سے کسی ایک کوایسی زیادتی کاملناجوعوض سے خالی ہواورعقدسے مشروط ہومثال کے طورپرایک شخص نے دوسرے شخص کوایک سوروپیہ دیااورساتھ ہی اسے کہہ دیاکہ اب واپس ایک سو کے بدلہ میں ایک سوبیس یا دوسولوں گایاقرض دیکرمزید نفع حاصل کیااسی طرح سود،سودی نظام،یاپھرسودسے متعلق کچھ بھی معاملات طے کرناقطعی طورپرحرام ہے قابل مذمت ہے اورسخت وعیدمیں داخل ہے اسلام میں سودلینایاسودی معاملات طے کرنے کی بلکل بھی گنجائش باقی نہیں ہے اس کی بہت سخت وعیدبھی ہے اوراسکے نقصانات سے بھی آگاہی دے دی گئی ہے

کیونکہ سودجیسی لعنت سے معاشرے میں بہت ساری برائیاں جنم لیتی ہیں یہ ایک ایسی لعنت ہے جس سے انسانیت کامعاشی استحصال ہوتاہے مفت خوری کی لت قائم ہوتی ہے حرص وطمع اورلالچ کی فضاء قائم ہوتی ہے خودغرضی سنگ دلی مفادپرستی شقی القلب کوپروان چڑھتاہے اخلاقیات تباہ کن مراحل میں داخل ہوتے ہیں معاشرے میں غریب بوجھ تلے دب جاتاہے سودبڑھتاجاتاہے اداکرنے والامقروض ہونے کیساتھ ساتھ ذہنی مریض بنتاجاتاہے اسی وجہ سے اللّٰہ رب العزت نے سودکھانے سے لینے سے اوردینے سے منع کیاہے چنانچہ قرآن مجید میں ارشادباری تعالیٰ ہے سورہ آل عمران میں ”اے ایمان والوسودمت کھاؤاللہ سے ڈروامیدہے تم کامیاب ہو“ایک دوسرے مقام پرسورہ البقرہ میں ارشادباری تعالیٰ ہے ”اورجولوگ سودکھاتے ہیں

وہ نہیں کھڑے ہوں گے(روزقیامت)مگرجس طرح کسی شخص کوشیطان خبطی بنادے لپٹ کریہ سزااس لیے ہوگی کہ ان لوگوں نے کہاتھاکہ بیع بھی تومثل سودہے حالانکہ اللہ نے بیع کوحلال جبکہ سودکوحرام فرمایاہے اسی سورہ البقرہ کے ایک اورمقام پرارشادفرمایا”اللہ سودکومٹاتاہے اورصدقات کوبڑھاتاہے اللہ پسندنہیں کرتاکسی کفرکرنیوالے کو اور کسی گناہ کے کام کرنیوالے کو“ایک اورمقام پرفرمایا”اے ایمان والواللہ سے ڈرو جوکچھ سود کابقایاہے اسے چھوڑدواگرتم ایمان والے ہو“ایک اورمقام پرقرآن مجیدمیں اللہ تعالیٰ نے سودلینے والوں سے اعلان جنگ کا بھی اعلان کیافرمایا”پھراگرتم (اس پرعمل)ناکروگے تواعلان جنگ سن لو اللہ کی طرف سے اوراس کے رسولؐکی طرف سے اوراگرتم توبہ کرلوگے توتم کوتمہارے اصل اموال مل جائیں گے ناتم کسی پرظلم کرنے پاؤگے اورناتم پرکوئی ظلم کرنے پائیگا“احادیث مبارکہ میں نبی کریم روف الرحیم رحمۃ اللعلمینؐجی سے نبی نے سودی لین دین کرنے والے کے بارے میں شدیدوعیدیں سنائیں ہیں حضرت ابوہریرہؓ روایت فرماتے ہیں کہ”آپؐنے ارشادفرمایاسات ہلاک کرنیوالی باتوں سے دوررہو لوگوں نے پوچھاکون سی آپؐفرمایا اللہ کے ساتھ شرک کرنا، جادوکرنا،کسی جان کوناحق مارناجس کواللہ نے حرام کیا،سودکھانا،یتیم کامال کھانا،جہادسے راہ فرار اختیار کرنا،پاک دامن مومن عورتوں پرزناکی تہمت لگانا

“حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں فرمایا”رسول مقبولؐنے جب کسی بستی میں زنااورسودپھیل جائے اللہ اس بستی کوہلاک کرنیکی اجازت دے دیتاہے“حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں فرمایا”رسول مقبولؐجس شب مجھے سفر معراج میں سیرکروائی گئی میراگزرایک ایسی
جماعت کے پاس سے ہواجن کے پیٹ کمروں کی مانند تھے ان میں بہت سارے سانپ دکھائی دے رہے تھے میرے پوچھنے پرجبرائیل امین نے عرض کی یہ سودخورہیں“حضرت عبداللہ بن مسعودؓسے روایت ہے فرماتے ہیں فرمایارسول اکرمؐسودکھانے والے کھلانے والے اس کی گواہی دینے والے اوراسکامعاملہ لکھنے والے سب پرلعنت فرمائی“ ایک دوسری حدیث شریف میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اکرم شفیع اعظمؐنے فرمایا”لوگوں پرایک زمانہ ایسابھی آئے گاکوئی بھی ایساباقی نہیں رہے گاجس نے سودناکھایاہوجوسودناکھائے گااسے سودکاغبارپہنچ کررہے گا

اس قدر شدید عذاب‘‘ شدید وعید کے باوجودہمارے معاشرے میں ہمارے ماحول میں ہمارے اردگردہمارے مسلمان بلاخوف وخطرسودکاکاروبارکررہے ہیں سودی نظام کورائج کئے ہوئے ہیں اللہ کہہ رہاہے جس نے سودکھایااس سے میرااورمیرے رسول کااعلان جنگ ہے جبکہ یہ لوگ کلمہ پڑھ کراپنے آپ کومسلمان کہہ کراسی نبی رحمۃ اللعلمینؐکے نام کاکلمہ پڑھ کرسوچتے ہیں اللہ اور اللہ کے رسول سے اعلان جنگ کرکہ یہ ترقی کرلیں گے یاانکی روزی میں کاروبار میں برکت ہوگی قطعاًنہیں اس سوچ سے انکے کاروباربھی تباہ ہوجائیں گے یہ خود بھی ہلاکت کے گڑھے میں گریں گے اورچنددن کی زندگی اورپھراچانک موت کے بعد انکوعذاب سے بھی گزرنا پڑے گالہذاابھی سے ہی قرآن مجیداوراحادیث مبارکہ کے ان احکام کوسامنے رکھیں جوہوگیا

اس پراللہ سے گڑگڑاکرمعافی مانگیں آئندہ سودسے سودی معاملات سے سودی کاروبار سے اور سودملازمت سے کنارہ کشی اختیارکریں اللہ کی وہ ذات جس نے چرند پرند سمیت دنیاکی تمام مخلوقات کی روزی کاذمہ اپنے ذمہ لیا ہے وہ اس سے بہتربھی عطاء کرے گااور خوب برکات سے بھی نوازے گا شرط یہ ہے کہ ہم اس ذات کیلئے اس کی نافرمانی والے کام چھوڑکر اسکی بتائی ہوئی تعلیمات پرعمل کی نیت سے چلیں توسہی۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں