سوتیلا تحریر عبدالجبار چوہدری

سوتیلا باپ ،بیٹا ،بھائی اور سوتیلی ماں ،بہن،بیٹی ہو سکتی ہے۔ سوتیلا پن ایک دکھ بھی ہے اور آزمائش بھی ہے اور نیکی کا ذریعہ بھی کیونکہ اس رشتہ کو صلہ رحمی کے ذریعے ایک مثال بھی بنایا جا سکتا ہے اور ظلم و زیادتی کے ذریعے ایک کر بناک حقیقت بھی ۔ جائیداد کی تقسیم اور شرعی حدود کی پامالی جتنی اس سوتیلے پن کے ذریعے کی جا تی ہے شاید ہی کسی اور وجہ سے کی جاتی ہو۔

ننھی معصوم بیٹیوں پر ظلم کے اتنے پہاڑ گرائے جاتے ہیں کہ انسانیت کانپ اٹھتی ہے اور سوتیلے بیٹوں سے اتنی مشقت کرائی جاتی ہے کہ جتنی ایک قیدی سے بھی نہیں کرائی جاتی۔ نہ پہننے کو کپڑا نہ معقول کھانا۔ نہ رہنے کو مکان اور نہ زندگی گزارنے کے لئے کوئی اور اسباب مہیا کیئے جاتے ہیں۔ہم راہ چلتے کسی بے سہارا کو سہارا دینا تو نیکی سمجھتے ہیں لیکن ہمارے گھر میں موجودیہ بے سہارا اور قابل رحم بچے ہمارے ظلم کا شکار رہتے ہیں۔گذشتہ کئی ہفتوں سے میری ملاقاتیں تسلسل کے ساتھ ایسے بچوں سے ہو رہی ہیں

۔دو حافظ قرآن جن کو عمریں با لترتیب بیس سال اور پندرہ سال ہیں۔ بڑابیٹا حفظ کیساتھ میڑک بھی کر چکا ہے جبکہ چھوٹا نویں کا طالبعلم ہے۔ ان کا والد ایک اچھے سرکاری ادارہ میں ملازم تھے جو کہ چھ سال قبل وفات پا گئے اور کیا ہے کہ یہاں ہی سے سوتیلے پن کی المناک داستان نے جنم لینا شروع کیا۔ چچا نے زمین کے تقسیم ہونے کے ڈر اور بچوں کی اعلیٰ تعلیم کے خوف سے کی وجہ سے کسی طرح خاندان،برادری کے بڑوں کو راضی کرکے ان بچوں کی ماں سے نکاح کر لیا۔ اب اس نے پہلاکام یہ کیا کہ ان بچوں کوشہرکے اچھے سکولوں سے اٹھالیا اور مقامی سکول میں داخل کروادیا۔

بڑے نے تو جیسے تیسے میٹرک کرلیا اور چھوٹابھی اسی تگ ود میں مصروف عمل ہے۔بڑے بیٹے کو خداترس افسر نے باپ کی جگہ ملازمت پر بلالیا اور اب چچانے زمین سے فراغت کا عندیہ دے رکھا ہے کہ اپنے باپ کی خریدی زمین پر جو مکان بنے ہیں وہ بھی دوسرے شہر میں ہے وہ لے لواور آبائی زمین سے دستبردار ہو جاؤ۔ایک طرف ماں دوسری طرف چچاجو سوتیلے پن کی آگ میں بھڑک چکا ہے جسے نہ تو یتیم بھتیجوں پر رحم آرہاہے

اور نہ ہی خداترسی، بس ان کے والد کی کمائی دولت کو اللے تللوں میں اڑایا جا رہا ہے اور بچے بس حسرت و یاس کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔ دین اسلام یتیم کے مال میں کسی قسم کے تصرف سے منع کرتا ہے اور ان کے بالغ ،سمجھدارہونے تک اس مال کی حفاظت اور ان کی کفالت کا حکم دیتا ہے۔جو اس کے بر عکس عمل کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی کرتا ہے روز محشر اس کی پکڑ ہو گی ۔ مختلف حیلے بہانوں سے یتیم کے مال کو غضب کر لینا،اور ان کی جائیداد،مکان پر قبضہ جما کر مالک بن بیٹھتایہ ایک انتہائی قابل گرفت عمل ہے۔ایک اور بچہ جس کی عمر چند سال ہے اس کی ماں فوت ہو گئی بس وہ معصوم ہاتھ جو کھلونوں سے کھیلنے کے قابل تھے

۔ اب اس کے ہاتھوں میں کبھی دودھ کا برتن ہوتاہے کبھی دکان سے لایا گیا سوداسلف اورکبھی اس کے ساتھ میں بکری کی رسی اورکبھی سرکنڈھے۔ کیاایسا سلوک حقیقی اولاد کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ایک بیٹی کہ جس کی عمر سیناپروناسیکنھے کی ہے،گڑیاکے ساتھ کھیلنے کی ہے اور کاغذ قلم اٹھانے کی ہے اس سوتیلی بیٹی کو ہانڈی پکانا سیکھنے لگے، اس کے معصوم ہاتھ گارے سے کھیلنے لگے اور پڑھنے لکھنے کے بجائے مال مویشیوں کو چارہ ڈالنے اور سنبھالنے کا ہنر سیکھنے لگے ۔ ان سوتیلوں سے انسانیت کی نام پر اپیل ہے کہ جو کوئی اس ذمہ داری کے نیچے آئے وہ خوف خدا کرتے ہوئیان یتیموں ،بے سہارابچوں کے بالغ ہونے اور تعلیم مکمل ہونے تک اس فرض کو نبھائے۔انسان اسی وقت آزمایا جاتاجب اس کے ہاتھ اختیا ر آتا ہے،اس کے ماتحت چند لوگ آتے ہیں

اور اس کوامانت دار بنایا جاتا ہے۔معصوم بچوں کی دعائیں لینے کے لئے ان کی پرورش کی جائے اور حسن سلوک سے نیکیاں کمائی جائیں نہ کہ ان معصوموں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑ کے جہنم خریدا جائے۔ بظاہر یہ بچے اپنے ماں باپ ،بہن بھائیوں کے ساتھ رہ رہے ہوتے ہیں لیکن ان کے معصوم چہرے بتا رہے ہوتے ہیں کہ وہ زندگی کی رعنائیوں، شفقتوں سے کوسوں دور ہیں۔مکان کے اندر رہتے ہوئے بھی بے مکان ہونے کا احساس رہتا ہے۔


عید کا دن بہت سی مشہور شخصیات نے اولڈ ہومز،آرفن ہاؤسز اور آئی ڈی پیز کے کیمپوں میں گذارااور ان کے بے گھر ہونے کے دکھ کو بھلانے کے لئے تفریح کا بندوبست بھی کیا گیا۔مگر ان گھریلوبے مکان ،اجڑے،مقتول جذبوں کے مالک لوگوں کو کسی نے نہ پوچھا۔حضرت سلطان باہو نے فرمایا تھا کہ ’’شالا کوئی مسافرنہ تھیوے ککھ جہناں توں بھارے ہو‘‘ نہایت ادب کے ساتھ کہ ’’شالا کوئی سوتیلا نہ ہووے سب جہناں تے بھارے ہو ‘‘سوتیلے لوگوں کا دکھ ہر کوئی محسوس کر سکتا ہے{jcomments on}

اپنا تبصرہ بھیجیں