سوئی گیس عوام کی بنیادی ضرورت بن گئی

آصف شاہ‘ نمائندہ پنڈی پوسٹ
عوام کے بنیادی مسائل کا حل کرنا اور ان کو ضروریات زندگی بہم پہنچانا حکومت کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے لیکن بدقسمتی سے یہاں جس بھی سیاسی جماعت کا دور اقتدار آیا اس نے اپنے منشور کو پس پشت ڈال کر عوام کو مسائل کی دلدل میں دھکیل کراس پر سیاست کرنا زیادہ ضروری سمجھا جا‘ عوامی مسائل کے حوالے سے ایک نظر قانو گو ساگری پر بھی ڈالتے ہیں یوسی ساگری کواین اے59اور این اے57کے بارڈر لائن پر لا کھڑا کیا ہے اور صوبائی حلقہ پی پی10میں اس کو شامل کیا گیا ہے اس حلقہ پر چوہدری نثار علی خان کی ریاست تھی جس پر وہ بلا شرکت غیرے حکمران تھے ، اس قانو گوئی کی عوا م کو جہاں بہت سے بنیادی مسائل کو شکار ہے وہاں اس میں سب سے بڑا بنیادی ضرورت زندگی یعنی گیس کی فراہمی کا مسلہ ہے ،اگر اب ان مشترکہ حلقوں پر ایک نظر ڈالی جائے تو اس میں گیس کی فراہمی کا سہرا پیپلز پارٹی کے سر جاتا ہے ،گوکہ پیپلز پارٹی پورے حلقہ کو گیس فراہم نہ کر سکی لیکن محترمہ شہید نے اس کی بنیاد ڈال دی اس کے بعد مکمل خاموشی رہی بعد ازاں ق لیگ کے ایم پی اے مشتاق کیانی نے قانو گوئی ساگری میں اپنے ایک قریبی دوست کے ساتھ مل کر مخصوص حلقوں میں اس کی فراہمی شروع تو انہوں نے عوامی مفاد کو دیکھتے ہوئے ارد گرد کی آبادیوں کو بھی اس سے مستفید کیا اس کے بعد ق لیگ کی حکومت رخصت ہونے کے ساتھ ہی جہاں جہاں گیس لگ چکی تھی وہی پر روک دی گئی اس کے بعد شہنشاہ معظم چوہدری نثار علی خان کے دور حکومت میں سیاسی انتقام کہیں یا کچھ پھر گیس حلقہ میں تو نہ لگ سکی اور جب کسی نے کبھی ان کے سامنے گیس کے حوالہ سے بات کرنے کی کوشش کی تو ایک رٹا رٹایا جواب سننے کو ملا کہ بہ جا گیس کے ذخائر نہیں ہیں اور ان کے دور میں پورے حلقہ میں کہیں بھی گیس کا پروجیکٹ نہ لگ سکا اور جن علاقوں میں گیس کے سروے ہو چکے تھے ان علاقوں میں گیس کو روک دیا گیا اب اگر قانو گوئی ساگری کی یوسی جن میں یوسی تخت پری،یوسی بگا شیخان،یوسی لوہدرہ ،یوسی ساگری اور یوسی مغل شامل ہیں کو دیکھا جائے جاے تو یہ این اے 57میں شامل ہیں جن سے کامیابی صداقت عباسی نے حاصل کی ہے دوسی جانب بارڈر کے اس طر ف حریف چوہدری نثار علی خان ،غلام سرور خان ہیں اور ان کئے پاس قلم دان بھہ وزارت بھی اسی سے منسلک ہے تو کیا صداقت عباسی اپنے حلقہ کی اس قانو گوئی کو گیس جیسی سہولت دلوا سکیں گے یہ ایک سوال ہے الیکشن میں کامیابی کے بعد صداقت عباسی پہاڑوں پر چڑھ کر بیٹھ گے ہیں ،ان کو پہاڑوں سے نیچے اتر کر حلقہ کی عوام اور بالخصوص ساگری قانو گوئی کی عوام کے مسائل کو سنجیدگی سے دیکھنا ہو گا دوسری جانب یہ قانو گوئی غلام سرور خان کے حلقہ میں باقاعدہ طور پر شامل نہیں ہے لیکن ان کے صوبائی کے حلقہ میں اس قانو گو کے علاوہ بھلاکر تک کا علاقہ اس میں شامل ہے اگر وہ قانو گو ساگری کے علاوہ صوبائی کے حلقہ جن میں یوسی غزن آباد یوسی گف اور بھلاکھر کو گیس کے لیے نظر انداز کرتے ہیں تو یقیناًیہ ان کے لیے سیاسی طور پر نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ غلام سرور خان ایک دھڑے کی سیاست کرتے ہیں اور ان کی کوشش ہوگی کہ اس حلقہ میں ان کا نامزد کردا امیدوار ہی کامیابی حاصل کرے تو یقیناًوہ اس کے لیے اس حلقہ اور بالخصوص قانو گوساگری کو نظر انداز نہیں کر سکتے اگر کسی بھی یوسی پر نظر ڈالیں تو تقریبا پچاس فی صد سے زائد عوام گیس کی سہولت سے مستفید ہو رہی ہے لیکن باقی عوام کو مخالفت چوہدری نثار کی وجہ سے اس سہولت سے محروم ہونا پڑا اب کیا دو حصوں مین بٹی اس قانو گوئی کا کوئی پرسان حال ہوگا اور کیاس کی عوام جو اس سہولت سے محروم ہے ان کو بھی یہ سہولت میسر ہوگی اس لیے ہمارے مقامی سیاسی نمائندوں جو ووٹوں کے لیے گھروں کے دروازے تک کھٹکٹاتے ہیں اور رات کے بارہ بجے تک بیل بجانے سے نہیں چوکتے انکا کیا کردار ہو گا اور کیا وہ اپنی عوام کے اس مسلے کو حل کروا سکتے ہیں دوسر اس کے بعد بلدیاتی الیکشنوں کا ڈھول بجنے کو تیار ہے کیا اس قانو گوئی کے لیڈران اس عوامی مسلے کا کوئی حل نکالیں گے یا ایک بار پھر عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگاتے ہیں کیونکہ ان یوسی کی عوام اگر اسی سیاسی انتقام کا شکار ہوئی ہے تو وہ ان مقامی لیڈران کی وجہ سے ہے باقی عوام بیچاری کا کیا قصور جس کی وہ سزا بھگت رہی ہے اگر مقامی لیڈران اور منتخب نمائندے اس قانو گوء کی عوام کو گیس جیسی سہولت فراہم نہیں کروا سکتے تو پھر عوام کو بھی عملی طوراس کا نمونہ بلدیاتی الیکشنوں میں دینا ہوگا

اپنا تبصرہ بھیجیں