سمگلنگ پاکستانی معیشت کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے

پاکستان میں ہر روز کوئی نہ کوئی مسئلہ ابھرتا رہتا ہے تاہم اسے حل کرنے کی نوبت ہی نہیں آتی اور کوئی دوسرا مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے ایک ایسا مسئلہ جو پاکستانی معیشت کو دیمک کی طرح اندر ہی اندر سے کھائے جا رہا ہے وہ اسمگلنگ ہے اسمگلنگ کسی بھی ملک کے لئے ایک ایسا زہر ہے جو اس کے اقتصادی نظام کو دفن کر کے رکھ دیتا ہے پاکستان میں اسمگلنگ روکنے کے کئی ادارے موجود ہیں مگر افسوس کے یہاں بھی کرپشن نے اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں اور اس کی وجہ سے یہ مسئلہ بھی بھی حل نہیں ہو سکا ہر دور میں یہ دعوی کیا جاتا رہا کے اسمگلنگ کے ذریعے مال لانے اور باہر لے جانے پر سخت پابندی عائد کر دی گئی ہے مگر عملاً یہ سلسلہ رک نہ سکا بلکہ پہلے سے زیادہ بڑھتا ہی رہا۔ کبھی آٹے کی بر آمد کبھی چینی کی برآمد اور اب ڈالروں کی بر آمد اس ملک کے لئے درد سر بنی رہی۔ اور اب ایرانی تیل بڑی مقدار میں سمگل ہو کر پاکستان آرہا ہے

columns

کوئٹہ میں تو پیٹرول پمپوں کی سیل نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے یہ سب کچھ سب کے سامنے ہو رہا ہے اور پنجاب و دیگر صوبوں تک اس تیل کی ترسیل جاری ہے ایرانی پیٹرول چونکہ ناقص بھی ہے اس لئے گاڑیوں کے انجن تباہ ہور ہے ہیں ساتھ ہی منظور شدہ پیٹرول پمپوں پر بھی ایرانی تیل کی ملاوٹ کر کے بھاری منافع کے لالچ میں بیچا جارہا ہے یہ سمگلنگ مافیا اتنا طاقتور ہے کہ ریاستی ادارے اس کے آگے بے بس نظر آتے ہیں خاص طور پر افغانستان اور ایران کے راستے سمگلنگ کو روکنا بہت مشکل کام نظر آتا ہے اس میں ادارہ جاتی مسائل بھی ہیں اور انفرادی مفادات کا عمل دخل بھی ہے اور اس کی وجہ سے پاکستانی معیشت کو ٹیکسوں اور ڈیوٹیز کی مد میں بھاری نقصان پہنچ رہا ہے اور ملک میں ضروری اشیاء کی کامیابی بھی ہو جاتی ہے مثلاً اس وقت پاکستان میں آٹے اور چینی کا بحران ہے۔
ان دونوں اشیاء کے نرخ بہت زیادہ ہو گئے ہیں چینی کی قیمت آنا فاننا دوگنا سے زیادہ ہوتی ہے جبکہ آٹا ہر روز نئی قیمت پر فروخت ہو رہا ہے یہ حقیقت بھی کھل کر سامنے آچکی ہے کہ ڈالروں کی سمگلنگ بھی افغانستان اور ایران میں کی جا رہی ہے اور لوگ بوریاں بھر بھر کر ڈالر پاکستان سے لے جار ہے ہیں وجہ ہے کہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت روز افزوں اضافے کا شکار سے جن کا اثر انٹر بنک ریٹ پر بھی پڑتا ہے اور ادھر اندرون ملک غیرقانونی طور پر ڈالروں کی ملک میں خریداری نے ڈالر کو پر لگا دئیے ہیں

جس کا ملکی معیشت پر انتہائی منفی اثر پڑ رہا ہے مہنگائی بڑھ رہی ہے درآمدی تیل مہنگا ہونے کی وجہ سے بجلی کی قیمت بھی بڑھ جاتی ہے اور دیگر اشیاء بھی مہنگی ہو جاتی ہیں اگر طور ڈالروں کی سمگلنگ پر قابو پا لیا جائے تو ملک میں ڈالروں کی افراط ہو جائے اور اس کی بلیک میں فروخت کا بھی خاتمہ ہو جائے یہ خبر خوش آئند ہے کہ سمگلنگ جیسے سنگین معاملے کا اعلیٰ سطح پر نوٹس لیا گیا ہے چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر نے بڑے تاجروں اور صنعتکاروں سے ملاقاتیں کی ہیں اور انہیں اس معاملے سے آگاہ کیا ہے اور ڈالر کے مسئلہ کو بالخصوص اجاگر کیا ہے جس کی وجہ سے پاکستانی معیشت سخت دباؤ کا شکار ہے اور یقین دلایا کہ ڈالروں کی سمگلنگ کو روکا جائے گا اور اس معاملے پر سخت اقدامات کا عندیہ دیا اور یہ کہ انٹر بینک ڈالر کی ٹریڈنگ میں شفافیت لائی جائے گی ڈالرز کی خریداری کے سب سے بڑے خریدار افغانی ہیں اور ڈالر افغانستان سمگل ہورہا ہے طور خم بارڈر پر انہیں کوئی روکنے والا نہیں سب سے بڑی مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ ائیر پورٹ کے راستے ایک مخصوص تعداد سے زیادہ فارن کرنسی نہیں جا
سکتی اور اس کا بھی ثبوت دینا پڑتا ہے کہ یہ کرنسی کہاں سے حاصل کی گئی جبکہ زمینی راستے سے اس پر کوئی پابندی نہیں یا اس پابندی کو کرپشن اور کمزور انتظامی گرفت کی وجہ سے ناکام بنا دیا جاتا ہے قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ افغانستان کی معیشت مضبوط ہورہی ہے۔ اس کے زر مبادلہ ذخائر ہم سے زیادہ ہیں اور ڈالر ریٹ بھی ہم سے کہیں کم ہے جبکہ ہمارے یہاں ڈالر جنس نایاب بنا ہوا ہے روپے پر شدید دباؤ ہے اور وہ کمزور ہوتا جاررہا ہے

جس کے اثرات عام آدمی کی زندگی پر یوں پڑے ہیں کہ مہنگائی اس کے لیے سب سے بڑا مسئلہ بن گئی ہے۔
ایک طرف آئی ایم ایف کا دہاؤ ہے کہ ڈالر کو سٹیٹ بنک کے کنٹرول سے آزاد کر دیا جائے اور دوسری طرف اگر اس کی سمگلنگ کو کھلی چھٹی دے دی گئی تو ڈالر کی پرواز جاری رہے گی اور اسے کبھی کنٹرول نہیں کیا جاسکے گا پاکستان میں فارن کرنسی کے قوانین تو موجود ہیں اُن پر عمل درآمد کی ضرورت ہے تاکہ ڈالر ذخیرہ کرلے گا جو ایک دوڑ لگی ہوئی ہے اسے روکا جا سکے ایسا نہ کیا گیا تو مہنگائی پر قابو پانے کے سارے حکومتی اقدامات پانی کا بلبلہ ثابت ہوں گے۔ اسی سلسلہ میں وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر نے سمگلنگ کو روکنے اور منی چینجرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا اعلان کیا ہے یہ ایک بہت اچھی پیشرفت ہے کہ ملکی معیشت کی بحالی کے لیے اعلیٰ سطح پر ایک سوچ موجود ہے آرمی چیف کا براہ راست اس معاملے میں دلچسپی لینا اور تاجروں، صنعتکاروں سے ملاقات کرنا ایک بڑی تبدیلی کی بنیاد بن سکتا ہے

سرمایہ کاری کے لئے سہولت فراہم کرنے والی قومی کونسل کے اجلاس میں بھی جو وزیر اعظم کی صدارت میں ہوا سعودی عرب اور خلیجی ممالک سے بچاس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے متوقع امکانات پر غور کیا گیا موجودہ حالات میں کہ جب پاکستان ایک معاشی بحران میں ڈوبا ہوا ہے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے مافیاز نے اس ملک میں اپنا سکہ جمایا ہوا ہے معیشت کے ہر دروازے پر ان کا پہرہ ہے اور انہوں نے اداروں کو نا کام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ سمگلنگ کا معاملہ ہی دیکھ لیجئے اس کی بیخ کنی کے لیے کوئی ادارہ کا میاب نہیں ہو سکا تاہم اگر اعلیٰ سطح پر اس کا نوٹس لے لیا گیا ہے تو کوئی بعید نہیں کہ حالات بہتر ہوجائیں پاکستان کے ریاستی ڈھانچے میں فوج کا کرداربہت اہم ہے خاص طور پر قانون کے نفاد اور سرحدوں کے دفاع و نگرانی میں فوج کے کردار کی کلیدی اہمیت عیاں ہے ملک کے اندر بھی اس کے کردار و اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اس کو موجودہ حالات میں چیف آف آرمی سٹاف نے معیشت کی بہتری کے لئے کردار ادا کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے اسے خوش آئند قرار دینا چاہیے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں