سماجی تعلقات

عبدالجبار چوہدری
سماجی تعلقات کو بڑھانے، محدود رکھنے اور ختم کرنے کا اختیار آدمی کے اپنے پاس ہوتا ہے ان تعلقات میں دوست، ہم جماعت، رشتہ دار برادری، ایک جگہ کام کرنے والے ، علاقہ کے عمائدین، مذہبی شخصیات سمیت بہت سے اور لوگ بھی آتے ہیں آدمی اپنی بساط، طاقت اور محبت ہمدردی کے ذریعے اس تعلق کو نبھاتا ہے آج ہر دوسرا آدمی مصروفیت کا رونا روتے نظر آتا ہے کہ اس کے پاس وقت نہیں اس میں بھی ایک درد، ہمدردی کا عنصر موجود ہوتا ہے کہ اپنے جاننے والے کے دکھ درد، خوشی میں شریک نہ ہو سکاساتھ ساتھ بہت سی عادتیں تبدیل اور بہت سی مصروفیات ترک کرنا پڑتی ہیں وقت کو کار آمد بنانے کے لئے اسے اپنے روز مرہ کے افعال میں بھی کمی بیشی کرنا ہوتی ہے۔ جب انسان کو عباد ت کا شعور آتا ہے تو ہمہ وقت کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ وقت اس میں گزرے، کاروبارمیں دلچسپی بڑھنے کی صورت میں بھی وقت کا زیادہ حصہ اس کی نذر ہوتا ہے۔ دوستوں، عزیز رشہ داروں کے لئے وقت کم ہوجاتا ہے اور نتیجتاََ تعلقات کمزور پڑجاتے ہیں۔ سماجی تعلقات کے تھوڑے یازیادہ ہونے کا تعلق معاشی حالات میں توازن نہ ہونے کی صورت میں بھی تعلقات ختم ہو جاتے ہیں مثلاََ معاشی حالت بہتر ہونے کی صورت میں اس کا دائرہ وسیع ہوتا ہے بہت سے لوگ ازخود اس دائرہ میں آجاتے ہیں اور معاشی حالات کے ابتر ہونے کی صورت میں یہی لوگ دور ہو جاتے ہیں جن تعلقات کی وجہ دولت، عہدہ اور مفاد نہیں ہوتی وہ ہمیشہ قائم رہتے ہیں ایک وقت تھا کہ شادی کے دوست کے ساتھ تعلق آنے والی نسلوں تک قائم رہتا تھا اور ایسا بھائی چارہ قائم ہوتا تھاکہ لوگ مثالیں دیتے تھے، ایک برتن میں اگٹھا کھانا کھانے والے تما م عمر اس کی لاج رکھتے تھے آج کا تعلق کیسا ہے کہ موبائل نمبر /رابطہ نمبر گم ہونے سے ٹوٹ جاتا ہے اور کئی کئی سال ایک علاقہ ،جگہ ،شہر میں رہنے کے باوجود ملنا درکنار آواز بھی نہیں سن سکتے ہیں ،تعلقات کے قائم رہنے کی مضبوط وجہ ہوتی ہے احسان ،وسیلہ ،ہمدردی ،عزت و احترام اور اس آدمی سے جڑی ہر چیز کی حفاظت اس کو تاحیات قائم رکھتی ہے وہ دوستی ،رشتہ داری اور تعلق ہی کیا جو ایک غلط فہمی ،ناروا رویے یاکسی بات کے پسند نہ ہونے کی وجہ سے ہمیشہ کے لیے ٹوٹ جائے بیمار ہونے ،بستر پر پڑے رہنے اور گھر تک محدود ہونے کی وجہ سے دوست دو ر ہو جائیں تو یہ بھی لمحہ فکریہ ہے غرض کہ کوئی قدر مشترک ایسی ہو جو اس تعلق کو ٹوٹنے نہ دے سیاستدان الیکشن کے دنوں میں سماجی تعلقات رکھنے میں بہت سرگرمی دکھاتے ہیں اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ہمدردی جتاتے ہیں الیکشن ختم ہوتے ہیں ہار جیت دونوں صورتوں میں ان تعلقات کا بہت ساحصہ گم کر دیتے ہیں ،صرف اپنے ووٹر ،سپورٹر یا پارٹی کے ساتھ وابستہ لوگوں تک محدود ہوجاتے ہیں اور عام آدمی یہ تضاد دیکھ کر دنگ رہ جاتا ہے اور بالآخر متنفر ہو جاتا ہے ۔
دیہی علاقوں کے لوگ ایک دوسرے کو جانتے ہیں عادات سے واقفیت رکھتے ہیں مہمانوں کے لیے گاوں سے باہر ڈیرے بنائے ہوتے ہیں خیبر پختونخواہ میں مہمانوں کے لیے حجرے بنائے جاتے ہیں اور پوٹھوار میں بیٹھک ہوتی ہے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شہروں کے قریب آجانے کی وجہ سے میل جول اور کھانے کے لیے ہوٹلوں کو ترجیح دینا شروع ہو گئی ہے خطہ پوٹھوہار کے چند مشہور گاوں میں تو سڑک کنارے اجتماعی تعزیت کے لے ہال بھی تعمیر ہوچکے ہیں اب نہ تو گھر سے غرض رہی اور نہ پتہ رکھنے کی بس اس ہال میں لواحقین سے تعزیت کر کے واپس آجائیں جس طرح شادہ بیاہ کی تقریبات گھروں سے رخصت ہو چکی ہیں وہ وقت دور نہیں جب فوتگی اور تعزیت بھی گھروں سے الوداع ہو جائے،سماجی اجتماعات کو بچانے ضرورت دیہی علاقوں میں ضروری ہو گئی ہے امن ،قانون کی عمل داری کے لیے بھی سماجی تعلقات کا ہونا بہت اہم ہے ثقافتی اقدار کے تحفظ ،مقامی رسوم و رواج کے بچاو اور پائیدار اقدار کے قیام کے لیے قریبی سماجی تعلقات کا ہونا بہت ہی ضروری ہے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں