سلیکٹڈ‘ امپورٹڈ اور عوام

تحریک آزادی میں برصغیر کے غریب و نادار لوگوں نے بڑے ہی جوش وخروش سے حصہ لیا تھا اور آزادی کی عظیم نعمت کے لیے اپنا تن من دھن سب کچھ نچھاور کر دیا اور پاکستان کی آزادی کی خوشی بھی سب سے زیادہ غریب و نادار طبقے نے ہی منائی تھی کیونکہ وہ اس امید پر اس تحریک کا حصہ بنے تھے کہ انہیں آزادی کے بعد حقوق ملیں گے ان کی غربت کسمپرسی کا خاتمہ ھو گا لیکن انہیں کیا پتہ تھا کہ وڈیرہ شاہی بعد میں بھی ان کی جان نہیں چھوڑے گی اور وڈیرے کی یہ خصلت ہے کہ وہ اپنے ماتحت یا مزارع کو خوش حال نہیں دیکھ سکتا ہمارے حکمرانوں کی اکثریت وڈیرے جاگیر دار رہے ہیں اب اس جدید دور میں لوگ تھوڑے باشعور ہو گے ہیں تو اس نے بھی زمانے کے تقاضے کے مطابق اپنا رنگ ڈھنگ تبدیل کر لیا ہے اب اس نے جاگیردار کا نقاب اتار کر سرمایہ دار کا نقاب پہن لیا ہے تاکہ کوئی پہچان نہ سکے بڑی مزے کی بات ہے کہ وڈیرے کی طرح سرمایہ دار کی بھی یہی خصلت ہوتی ہے کہ اس کا ملازم خوش حال نہیں ہونا چاہیے ورنہ وہ اس کے زیر تسلط کام نہیں کرے گا اس لیے پسے ہوئے مفلوک الحال پاکستانیوں کی نظر کسی مسیحا کی تلاش میں تھی جو ان کو غربت افلاس مہنگائی بے روزگاری کی عفریت سے جان چھڑا کر خوش حالی کی طرف لے کر جائے تو اسی اثنا میں میڈیا نے ایک مسیحا کی نشاندھی کی جس کا منشور غربت افلاس بے روزگاری سے نجات کرپشن سے پاک ملک اور اس میں ملوث افراد کو سخت سے سخت سزا اور ان کی لوٹی ہوئی 200 ارب ڈالر کی رقم جو بیرون ملک پڑی تھی اس کی واپسی سستا اور فوری انصاف ایک کروڑ روزگار کے مواقع یعنی ماڈریٹ فلاحی ریاست کا قیام جس میں ہر فرد کو بلا تفریق زبان نسل مذہب کے تمام بنیادی حقوق حاصل ہوں گے اس نے اس کو ریاست مدینہ کا نام دیا ایسا خوش کن اور دل لبھانے والا منشور جس شخصیت نے دیا اس مسیحا کا نام عمران خان ہے اللہ اللہ کرتے پوری قوم نے اس امید پر کہ یہ مسیحا اپنے متعدد وعدوں اور دعووں کو عملی جامہ پہنائے گا جن کے تحت کرپشن کا خاتمہ بیرون ملک سے کرپشن کے پیسے کی واپسی ایک کروڑ روزگار کے مواقع ملک میں مہنگائی میں کمی معاشی ترقی کے نئے ابواب کا آغاز ہو گا اس مسیحا کو ملک کا وزیراعظم بنا دیا اب لوگ اس تصور میں زندگی بسر کرنے لگے کہ صبح ہوتی تو شام کا انتظار کرتے شاید رات کو کوئی اچھی خبر آئے اور رات کو اس امید پر سوتے کہ ممکن ہے صبح ہمارے لیے کوئی نئی خوشگوار خبر آ جائے لیکن یہ خبر نہ صبح آئی نہ شام ریاست مدینہ کو دیکھنے کی منتظر آنکھیں انتظار میں پتھرا گئیں اور کان یہ خبر سننے سے پہلے بہرے ہو گے الٹا روزانہ پیٹرول ڈیزل گیس گھی آٹا چینی ڈالیں سبزیاں فروٹ گوشت ان سب چیزوں کے مہنگا ہونے کی خبریں روز کان سنتے رہے اور ملکی قرضے کم ہونے کے بجائے اتنے بڑھ گے کہ اب تو ملک کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ سر پر منڈلا رہا ہے نہ روزگار ملا اور نہ ہی سستا اور فوری انصاف الیکشن سے پہلے جن چودہ مقتولین کے لواحقین کو انصاف دلانے کی روز دھائیاں دیا کرتے تھے اپنے چار سالہ دور اقتدار میں ان کا ایک صرف ایک مرتبہ نام لینا بھی گوارا نہ کیا کرپشن کے جن پیسوں کو واپس لانے کا وعدہ کیا تھا وہ تو نہ آ سکے بلکہ الٹا براڈ شیٹ کو اربوں روپے خزانے سے بطور جرمانہ ادا کر دیے جن کو کرپشن پر سزائیں دینی تھیں ان کو خود بحفاظت لندن بھیج دیا اس طرح یہ تو برے طریقے سے ناکام ہوئے ان کو طعنہ دیا جاتا تھا کہ یہ سلیکٹڈ ہیں ان کو کسی چیز کا تجربہ نہیں اس لیے ناکام ھوئے ملک کا بیڑہ غرق کر دیا اب وہ گے تو جو آئے ہیں ان کو امپورٹڈ کہا جاتا ہے یہ حد
سے زیادہ تجربہ کار ہیں جن کی ساری زندگیاں ہی اسی کام میں گزر گئیں ہیں اور سونے پے سوھاگہ 1985 سے لے کر 2018 تک جو لوگ اقتدار کے مزے لیتے رہے وہ تمام کے تمام آج اکٹھے ہیں ان سب کو کئی کئی بار حکومت چلانے کا تجربہ ہے اس وقت حکومت میں تین سابق وزیراعظم ایک صدر اور جس کو وزیراعظم کے منصب کے لیے چنا گیا ہے وہ تیرہ سال ملک کے سب سے بڑے صوبے کا وزیر اعلیٰ رہ چکا ہے اور سب سے بڑھ کر ایڈوائزر وہ شخص ہے جو تین دفعہ ملک کا وزیر اعظم رہ چکا ہے اس لیے اس حکومت پر بھی عوام کی نظریں مرکوز ہیں کہ شاید اس مرتبہ ان کی قسمت بر آئے اور ان کے لیے کچھ آسانیاں پیدا ہو جائیں کیونکہ یہ عوام کو مہنگائی کے عذاب سے نجات دلانے آئے تھے لیکن ایک مہینہ ہو گیا ہے ان سے صرف ڈالر قابو نہیں ہو رہاوہ ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے اور شنید ہے کہ 200 کی حد عبور کر جائے گا ملکی پیداوار کا 80فیصد سے زائد چینی بنانے والی شوگر مل مالکان اور برائلر مرغی کے سب سے بڑے سپلائیر اس وقت حکومت کا حصہ ہیں باقی اشیاء ضروریہ کو چھوڑ دیں صرف ان دو کی قیمتوں میں تو استحکام آنا چاہیے تھا ان کی قیمتوں میں استحکام کیوں نہیں آ رہا نہ کوئی بلیک میل کر رہا ہے اور نہ ہی بیرون ملک سے منگوائی جارہی ہیں کہ مہنگی مل رہی ہے اور پیٹرول سستا کیوں نہیں ہو رہا اس وقت تو مفتاح اسماعیل صاحب کہا کرتے تھے کہ 135روپے لیٹر پیٹرول کون خرید سکتا ہے گورنمنٹ نے عوام پر ظلم کیا ہے تو حکومت میں آتے ہی فرمانے لگے کہ حکومت نے سستا پیٹرول بھیج کر ملکی خزانے کو اربوں کا نقصان پہنچایا ہے اگر پیٹرول سستا بیچنے سے ملک کو اربوں کا خسارہ ہو رہا ہے تو مہنگا کردو کیوں تم بھی اربوں کا خسارہ کر کے قومی مجرم بن رہے ہو ملک پہلے ہی دیوالیہ ہونے کے قریب ہے یہ سب بیان بازیاں شعبدہ بازیاں دوسروں کو جھوٹا ثابت کرنا صرف اور صرف اپنی سیاسی ساکھ کو بچانے کے لیے ہے ان میں سے نہ سلیکٹڈ اور نہ ہی امپورٹڈ اس ملک اور عوام کے ساتھ مخلص ہیں اور نہ ہی ان کے بارے میں کوئی سوچتا ہے اور نہ ہی کسی کو ان کی فکر ہے اگر بے چاری عوام کی فکر ہوتی تو امپورٹڈ نے تو تین دھائیاں حکومت کی ہے اور سلیکٹڈ نے چار سال کسی ایک کے دور حکومت میں تو کچھ بہتری آئی ہوتی تو ہم کہتے نہیں یہ کچھ کرے گا دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں لیکن عوام کے لیے ہر آنے والا لمحہ بد سے بد تر ہو رہا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں