251

سلطان محمود چشتی‘نعت گوشاعر

سلطان محمود چشتی نوجوان نعت خوانوں میں غیر معمولی پہچان کے حامل خوبصورت نعت گو شاعر بھی ہیں۔ ایک مشاعرے میں ان کی پوٹھوہاری نعت ان کی اپنی آواز میں سننے کا موقع ملا

، انھوں نے اس نعت اور اپنی سریلی آواز پر خوب داد سمیٹی۔ اس مشاعرے کے چند سالوں بعد انھوں نے اردو کا مجموعہ ء نعت ”سبیل بخشش“ادبی دنیا میں پیش کر کے سب کو ورطہ ء حیرت میں ڈال دیا۔اس سے قبل اردو سیرت کا پوٹھوہاری زبان میں ترجمہ کیا اور بطورِ مترجم خود کو منوا چکے ہیں

۔ آج معاشرے پر نظر ڈالیں تو جدید ٹیکنالوجی کے دور میں پوری دنیا کے نوجوان افراتفری اور بے راہ روی کا شکار نظر آتے ہیں اور اپنے اپنے مذہب سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ صرف خاص تہواروں کو جوش و خروش سے منایا جاتا ہے،

بلند نعرے لگائے جاتے ہیں اور اس کے بعد اسی دنیا میں خود کو داخل کر لیتے ہیں جہاں خود کشی کے سوا دوسرا راستہ کوئی نہیں۔اکثریت لبرل ازم کی پیروکار نظر آتی ہے

ایسے حالات میں جو نوجوان ادب سے وابستہ ہیں، اپنے معاشرے اور اس کے مسائل سے آگاہ ہیں، پھر اپنے مشاہدات احساسات اور جذبات کو تحریری صورت میں مختلف رنگوں سے سجا کر کتابی صورت میں بطورِ تحفہ پیش کرتے ہیں، وہ قابل تعریف ہیں ان کی حوصلہ افزائی فرض عین ہے ادب کی رنگا رنگ دنیا میں نوجوان غزل کو ترجیح دہتے ہیں اور چند سالوں میں چند متفرق اشعار اور کچھ جدید لہجے میں غزلیں لکھ کر سوشل میڈیا کی وجہ سے شہرت کی بلندیوں کو چھونے لگتے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے

کہ اس وقت کچھ نوجوان شعرا نعت گوئی میں اپنی الگ پہچان بنا رہے ہیں۔ وہ بہت محتاط اور ایسے سلیقے سے نعتیہ اشعار کہتے ہیں، سننے والا سبحان اللہ سبحان اللہ کہنے پہ مجبور ہو جاتا ہے ان نعت گو شعرء ا میں سلطان محمود چشتی بھی زیادہ وقت نعت کو ہی دیتے ہیں

وہ دیگر شعراء کی طرح اس بات کا شعور رکھتے ہیں کہ نعت کہنا یقینا تلوار کی دھار پر چلنے کے مترادف ہے۔ان کی کتاب ”سبیل بخشش“کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ کہنا پڑتا ہے

کہ یہ نہ صرف نعت کہنا جانتے ہیں بلکہ اس کے مزاج، اس کی نفاست، مقام اور اہمیت و افادیت سے بخوبی واقف ہیں۔ وہ بہت محتاط ہو کر نعت کہتے ہیں، جسے میں ان کی خوبیوں میں شمار کرتا ہوں۔ ان کی کتاب میں شامل نعتیں نہ صرف کئی بحور میں ہیں بلکہ ان کی کئی نعتوں کی ردیفیں بہت تازہ اور خوبصورت ہیں۔ ان ردائف میں غزل کہنا مشکل ہو جاتا ہے، پھر نعت اور اس کے درجنوں اشعار کہنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔

انھوں نے ان ردائف میں بہت آسانی سے نعتیں کہی ہیں اور ایک کیفیت میں لکھی محسوس ہوتی ہیں یہ ردائف ملاحظہ کیجیے: تازہ، مبارک، ترے در کے، ان کے دم سے،کون دیتا، معتبر ہے

، نازاں، پھر سے، آج ہو گی، کے تصدق، ڈھونڈتے ہیں، نعت کی ہے وغیرہ وغیرہ۔
ان مختلف اور خوبصورت ردائف میں کہی نعتوں کا ایک ایک شعر پیشِ خدمت ہے:
ثنائے محمد کے صدقے میں سلطاں
مجھے روز ملتی ہے سوغات تازہ
تھکن کیسی زائر مدینے کی راہ میں
مدینے کا ہر اک سفر ہے مبارک
لکھی نعت احمد تو ہم نے یہ دیکھا
زمانے میں سلطاں گہر بن کے چمکا
اس در پہ جبین سائی سعادت ہے ہماری
قابل تھے کہاں سر یہ ہمارے ترے در کے
درِ مصطفی کی گدائی پہ نازاں
گدا اپنی قسمت رسائی پہ نازاں
میری خواہش عجب ہے اور میں ہوں
مدینے کی طلب ہے اور میں ہوں
مدینے میں جا کر ملی مجھ کو تسکیں
دعائیں ہوئیں بااثر ان کے دم سے
اس طرح کے مختلف ردائف میں اچھے اشعار پڑھنے کو ملتے ہیں۔
”سبیل بخشش“نہ صرف ان کی خوبصورت کتاب کا نام ہے بلکہ اس کے اندر عاجزی، بے بسی، عقیدت اور ایمان کی پختگی ایسے پہلو نمایاں ہیں۔ اس کیفیت میں سینکڑوں اشعار اس کتاب میں ملتے ہیں۔

ان کی بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ نعت کے مضامین سے واقف ہیں۔ اس سے بڑھ کر توحید اور رسالت کا کیا مقام اور ان میں کیا فرق ہے، اس سے بہ خوبی واقف ہیں۔آخر میں یہ بات لازمی کہنا چاہوں گا کہ ”سبیلِ بخشش“نے انھیں نعت گو شعرا ء کی صف میں کھڑا کر دیا ہے

لیکن ان کی معاصر نعت پر بھی خاص نظر ہونی چاہیے۔ جدید اور پختہ کار نعت گو شعرا کی کتب کا مطالعہ بھی لازمی کرنا چاہیے تاکہ ان کا اگلا نقش بہت سنہرا اور گہراہو۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں