سلطان الواعظین ابوالنور محمد بشیر کوٹلوی

اس عالم رنگ و بو میں مختلف مزاج و اطوار کے حامل لوگ گزرے جن کے تذکار جمیلہ سے تاریخ ہمیشہ مزین و معطر رہے گی۔انہی پاکیزہ سیرت کے حاملین میں سے ایک نام سلطان الواعظین ابوالنور محمد بشیر کوٹلوی علیہ الرحمہ کا بھی ہے جن کی سیرت تاریخ کے اوراق کو ہمیشہ جلوہ تابانی سے درخشاں رکھے گی۔آپ 26ربیع الثانی 1331ہجری بمطابق 4اپریل 1913عیسوی بروز جمعۃ المبارک سیالکوٹ کے معروف گاؤں کوٹلی لوہاراں میں پیدا ہوئے۔علم و حکمت کا نور آپ کو میراث میں ملا کیونکہ آپ کے والد محترم فقیہ اعظم مولانا ابو یوسف محمد شریف محدث کوٹلوی علیہ الرحمہ اپنے دور کے علماء میں اسی طرح ممتاز تھے جس طرح چاند ستاروں میں ہوا کرتا ہے لہذا آپ ایک ایسے ماحول میں پروان چڑھے جہاں صبح شام قال اللہ اور قال الرسول کے ترانے گونج رہے تھے۔ابتدائی کتب اپنے والد محترم کے پاس پڑھیں اس کے بعد دارالعلوم حزب الاحناف (لاہور) میں علمی پیاسی بجھانے کے لیے تشریف لے گئے۔

آپ اپنی قابلیت کی بنا پر اپنے اساتذہ کرام کی توجہات کا مرکز رہے اور دور طالب علمی میں ہی آپ کی تصنیف و تقریر کے ڈھنکے بجھنے لگے۔ چنانچہ اپنی سریلی، جاذبیت سے لبریز آواز اور جرت مندانہ افکار کی بنا پر’سلطان الواعظین‘ اور’شیر پنجاب‘ جیسے عظیم القابات سے سرفراز ہوئے۔آپ کی تحریری خدمات میں سچی حکایات‘ جبریل کی حکایات‘ شیطان کی حکایات واعظ، اور منظوم حکایات جیسی گراں قدر کتب سر فہرست ہیں اس کے علاوہ درجنوں مضامین پر آپ کی تحقیقات محققین کے ہاں درجہ مقبولیت پر فائز ہیں اور آپ کے بڑے صاحبزادے مبلغ یورپ حضرت علامہ عطاء المصطفی جمیل صاحب (گولڈ میڈلسٹ) دور حاضر کے تقاضوں کے پیشِ نظر آپ کی تصانیف پر کام کر رہے ہیں۔ اللہ عزوجل عطاء المصطفی جمیل صاحب دامت برکاتہم العالیہ کو اس کار خیر پر استقامت عطا فرمائے۔ سلطان الواعظین معتبر عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مایا ناز حکیم بھی تھے لوگ دور دراز سے آکر آپ سے علاج کروایا کرتے تھے خصوص با الخصوص اٹھراہ کے معالج کے طور پر آپ کا چرچا دود دور تک عام تھا۔ آپ کے وصال کے بعد آپ کے صاحبزادے ضیاء المصطفیٰ شریفی صاحب جو کہ کوٹلی لوہاراں میں ہی مقیم ہیں آپ کے مطب میں جلوہ افروز ہوئے اور آج بھی اپنے والد محترم کی مسندِ حکمت کو سمبھالے ہوئے ہیں۔

صاحبزادہ بلال احمد اور صاحبزادہ رشید احمد میں بھی سلطان الواعظین کی سیرت کی جھلک نمایاں ہے۔ اللہ تعالیٰ تمام صاحبزادگان کو عمر دراز عطا فرمائے۔ راقم الحروف سلطان الواعظین کی شخصیت سے آشنا نہ تھا آشنائی کا سبب سلطان الواعظین کے پڑپوتے محمد طہ یوسفی صاحب بنے جو کہ گلستان مہر علی جامعہ رضویہ ضیاء العلوم میں اپنے آباء کی وراثت کو سنبھالتے ہوئے درس نظامی پڑھ رہے ہیں اور راقم الحروف سے سینئر ہیں یہ الگ بات کہ وہ اعلی ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس بات کو تسلیم نہیں کرتے بہرحال ’بڑے لوگوں کی بڑی باتیں‘۔ امید قوی ہے کہ آپ اپنے اسلاف کے دامن سے وابستہ رہتے ہوئے دینی خدمات کو اپنا شعار بنائیں گے۔اگر چہ راقم الحروف سلطان الواعظین کے دور کو نہ پاسکا مگر آپ کے صاحبزادے علامہ عطاء المصطفی جمیل صاحب کی زیارت اور شرف ملاقات کو غنیمت گردانتا ہے کہ’الحمد للہ ہمیں آپ تو میسر آئے‘ اور اس بات پر جس قدر رب کریم کا شکر ادا کیا جائے کم ہے۔سلطان الواعظین کی تحریری و تقریری خدمات پر جی سی یونیورسٹی کی طالبہ ماہم خادم نے ایک مستقل مقالہ لکھا جس میں آپ کے احوال تفصیل کیساتھ مرقوم ہیں راقم الحروف اس تحریر میں آپ کی سیرت اور خدمات کا احاطہ کرنے سے قاصر ہے

آپ ساری زندگی اخلاص کیساتھ دین متین کی خدمت میں سرگرم رہے اور متلاشیان حق کو راہ ہدایت کی جناب مدعو فرماتے رہے۔ آخر وہ وقت آن پہنچا کہ ہر آنکھ کو اشکبار اور ہر دل کو غم سے چور چھوڑ کر 19رجب المرجب 1428ہجری بمطابق 14 اگست 2007 عیسوی کو آپ خالق حقیقی سے جاملے۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔کوٹلی لوہاراں میں آج بھی آپ کا مزار پر انوار تشنگان ہدایت میں تسکین قلب کی رعنائیوں کو تقسیم کر رہا ہے
مدت سے امیر ان کے ملنے کی تمنا تھی
آج اس نے بلایا ہے لینے کو قضا آئی
نوٹ:ان شاء اللہ سلطان الواعظین کی سیرت و کردار اور خدمات دینیہ کے حوالے سے مزید کام جلد قارئین کی خدمت میں پیش ہو گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں