سلام ٹیچر

تحریر چوھدری محمد اشفاق
لفظ استاد محض پانچ لفظوں کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ ان پانچ الفاظ میں سے ہر لفظ کی ایک الگ الگ کتاب بنتی ہے جس کتاب کے سینکڑوں کے حساب سے صٖفحات بنتے ہیں تب کہیں جا کر لفظ استاد کی تعریف مکمل ہوتی ہے استاد کو ایک بہت بڑا مقام و مرتبہ حاصل ہے استاد ایک چراغ کی مانند ہے جو تاریک راہوں میں روشنی کے وجود کو برقرار رکھتا ہے استاد وہ پھول ہے جو اپنی خوشبو سے معاشرے میں امن، مہر، محبت و دوستی کا پیغام پہنچاتا ہے استاد ایک ایسا رہنما ہے جو آدمی کو زندگی کی گم راہیوں سے نکال کر اصل منزل کی طرف گامزن کرتا ہے معاشرے میں جہاں ماں باپ کا کردار بچے کیلیئے اہم ہے وہاں استاد کو بہت اہم مقام حاصل ہے جب ہم ایک تین سال کے بچے جس کو نہ پیشاب نہ ناک صاف کرنے کا پتہ ہوتا ہے سکول میں استاد کے حوالے کرتے ہیں تو استاد اس بچے کی ماں اور باپ بن جاتے ہیں وہ اس کی ناک بھی صاف کرتے ہیں اور بعض دفعہ اس کو ساتھ لے جا کر پیشاب بھی کرواتے ہیں مان باپ بچے کو لفظ بہ لفظ سکھاتے ہیں ان کی اچھی طرح سے نشو و نما کرتے ہیں مگر استاد وہ رہنما ہے جو آدمی کو انسان بنا دیتا ہے استاد ایک عام و معمولی سے آدمی کو آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دیتا ہے استاد کا پیشہ باقی تمام پیشوں کو بنانے والا ہوتا ہے صرف اس ایک پیشے سے باقی تمام شعبہ جات کا مستقبل منسلک ہوتا ہے شعبہ زندگی میں تمام اداروں میں ترقی کرنے والے افراد ان کی تعلیم و تربیت کا سہرہ استاد جیسی عظیم ہستی کو ہی جاتا ہے استاد کی طرف سے سکھایا جانے والا ایک ایک لفظ ساری عمر کیلیئے زہن میں بیٹھ جاتا ہے اور وہ مرتے دم تک زہن سے نکل نہیں سکتا ہے آپ کا تعلق دنیا کے کسی بھی شعبہ سے ہو وہاں تک لے جانے میں اس عظیم ہستی کا ہی کردار کار فرما ہوتا ہے ٹیچنگ ایک پیشہ ہی نہیں ہے بلکہ یہ ایک خدمت کا جذبہ بھی ہے بہت سارے استاد ایسے بھی دیکھے گئے ہیں جو ریٹائرمنٹ کے بعد بلامعاوجہ بچوں کو ٹیوشن وغیرہ پڑھاتے ہیں استاد ٹیچنگ کے علاوہ بھی اور بہت ساری خدمات انجام دے رہے ہیں استاد اپنے شاگرد کیلیئے درد دل رکھتے ہیں اور وہ جذباتی طور پر اس بات کے خواہاں ہوتے ہیں کہ ان کے شاگرد آگے چل کر کوئی مقام حاصل کر سکیں اس کے بدلے استاد کو صرف ایک روحانی خوشی ملتی ہے اور وہی خوشی اس کی مزدوری کہلاتی ہے استاد بہت بلند مرتبے و مقام کا مالک ہوتا ہے بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں استاد کو وہ مقام ھاصل نہیں ہے جو اس کا حق بنتا ہے اور نہ ہی حکومتیں اس حوالے سے اپنا کردار ادا کر رہی ہیں ہمارے اساتذہ جو قوم کے معمار تیار کرتے ہیں ان کی تنخواہیں بہت کم ہیں جن سے ان کے گھر کا گزارہ تو بمشکل چل ہی جاتا ہے لیکن خوشحالی کی زندگی گزارنے کیلیئے ان کو بہت سی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب تک استاد خوشحال نہیں ہو گا اس کا زہن دوحسصوں میں بٹا رہے گا اور وہ بچوں کی پڑھائی پر اپنی توجہ مکمل طور پر مرکوز نہیں رکھ سکے گا دوسری سب سے زیادہ پریشانی کی بات یہ ہے کہ استاد کو پابندیوں کے ایک بہت بڑے جھکڑ میں پھنسا دیا گیا ہے مانیٹرنگ کے سخت ترین نظام نے استاد کی کارکردگی کو متاثر کر رکھا ہے اور وہ ایک انجانے سے خوف میں مبتلا رہتا ہے جو ان کی اعلی کاکردگی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے استاد کو اگر اس کے فرض کے حوالے سے بلکل آزاد کر دیا جائے تو یقینا ان کی کارکرد گی مزید بہتر ہو سکتی ہے مغربی ممالک میں سب سے زیادہ عزت و توقیر اگر کسی کو دی جاتی ہے تو وہ ایک استاد ہے جبکہ ادھر ہمارے ہاں اساتذہ کیلئے مسائل ہی مسائل ہیں اور سب سے کمزور اور مجبور طبقہ ہمارے اساتذہ کو ہی سمجھا جاتا ہے محکمہ کے آفسران اساتذہ کو اپنا ذاتی ملازم جبکہ حکمران اساتذہ کو ذاتی غلام سمجھتے ہیں۔آج کے اساتذہ کو ذہنی سکون میسر نہیں اور وہ ذہنی کرب کا شکار ہیں۔اساتذہ کو خاندان کے علاوہ کسی اور کی مرگ پر چھٹی کی اجازت نہیں اور سب کے سب احکامات زبانی زبانی دہئے جاتے ہیں سکول سے غیر حاضری پر ان کی تنخواہ کاٹ لی جاتی ہے جبکہ اسمبلی کے ممبران جو سال کے بعد اجلاسوں میں شرکت کرتے ہیں انہیں پوری تنخواہیں اور مراعات دی جاتی ہیں۔ستم بالا ستم یہ کہ 25/30سال تک ایک پرائمری سکول ٹیچر اسی گریڈ میں اور اسی پوسٹ سے ریٹائر ہو کر گھر چلا جاتا ہے۔اساتذہ جب بھی اپنے مسائل کا ذکر کرتے ہیں تو افسران محدود وسائل کا رونا رو کر انہیں خاموش کروا دیتے ہیں ہم اساتذہ کے مقام کو کبھی نہیں بھول سکتے۔ میں آج جس مقام اور رتبہ پر ہوں اس میں میرے اساتذہ کا ہی ہاتھ ہے تدریسی شعبہ بلاشبہ انتہائی مشکل شعبہ ہے جس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔میں اپنے اساتذہ کرام کو آج تک نہیں بھولا اور جب بھی وہ میرے سامنے آتے ہیں تو میں ان کا اسی طرح ادب و احترام کرتا ہوں جیسے زمانہ طالب علمی میں کیا کرتا تھا اب اس عظیم ہستی کو ایک نئے عذاب میں دھکیل دیا گیا ہے ان کی لیو انکیشمنٹ اور پنشن رولز میں بہت ساری تبدیلیاں کرتے ہوئے حکومت نے ان کی پنشن مراعات وغیرہ میں کمی کر دی ہے ایک استاد جو اپنی زندگی کے بہترین دن و وقت دوسروں کی خدمت میں گزار دیتے ہیں صرف اس انتظار میں کہ جب عمر پوری کر کے ریٹا ئرمنٹ ملے گی تو جمع پونچی مل جائے گی جس کے سہارے بڑھاپا گزر جائے گا لیکن اب پنجاب حکومت نے ان سے یہ خوشی بھی چھین لی ہے اب ایک استاد محض ساتھیوں کی طرف سے دی جانے والی ٹوپی اور تسبیح کے ساتھ گھر پہنچے گا باقی گھر والوں کی چھٹی ہو گی وہ استاد جو خود زہنی طور پر پریشانی میں مبتلا ہو گاوہ بچوں کو کیسے پڑھا سکے گا اس کی سوچ حکومتی پالیسیوں کے گرد گھوم رہی ہے وہ ہر وقت زہنی تذبذب کا شکار رہیں گئے اس طرح کے بے معنی ٹیچر ڈے منانے کا کوئی مقصد نہیں ہے مقصد تب پورے ہوں گئے جب استاد خوشحال ہوں گئے ہر ٹیچر ڈے کے موقع پر ان کو نئی خوشیاں حاصل ہونی چائیں افسوس کہ ہم ابھی تک استاد کے مقام و مرتبے کو سمجھنے سے قاصر ہیں خوشحال استاد ہی بہترین معاشرے کی تکمیل کے ضامن ہیں اس فرشتہ صفت ہستی کو زہنی سکون کی ضرورت ہے جو ہماری حکومت ان کو نہیں دے رہی ہے حکومت کو اپنی ملازم دشمن پالیسیوں پر نظر ثانی کرنا ہو گی ورنہ اس عظیم ہستی کا تقدس ذائل ہو جائے گا

اپنا تبصرہ بھیجیں