سقوط ڈھاکہ ناقابل فراموش سانحہ/ عاطف کیانی

عظیم قومیں اپنی تہذیب و ثقافت ‘ روایات ‘ نظریات اور عزت و ناموس کی حفاظت کرتی ہیں اسی میں ان کی بقا ء اور سلامتی پوشیدہ ہوتی ہے اور جو قومیں اپنی ثقافت ‘ رویات و نظریات کو پس پشت ڈال دیتی ہیں وہ گمنامی کے اندھیروں میں گم ہوجاتی ہیں ۔ پاکستان جس نظریے کی بنیا پر وجود میں آیا وہ نظریہ اسلام کا تھا اور اسلام عدل و انصاف ‘ اخوت و بھائی چارے اور رواداری کا درس دیتا ہے ۔ 16دسمبر پاکستان کی تاریخ میں سیاہ دن ہے جس دن ہم اسی نظریے کی حفاظت نہیں کرسکے ۔جس کو بنیاد بنا کر پاکستان کا قیام عمل میں آیا تھا۔ اپنی کوتائیوں ‘ غلطیوں اور نظریات سے ہٹ کر کام کرنے کی وجہ سے ہم نے اپنا آدھا ملک گنوا دیا ۔ عدل و انصاف ‘ اخوت ‘ رواداری اور بھائی چارے کی فضا کو قائم نہ کر سکے جس کے حق دار وہ پاکستانی بھی تھے جو مشرقی پاکستان میں رہتے تھے پھر جلتی پر تیل کا کام مکتی باہنی نے کر دیا اور وہ جو قیام پاکستان کے وقت سب ایک تھے اور پاکستانی کہلوانے میں فخر محسو س کرتے تھے بنگالی اور پاکستانی میں تقسیم ہوگئے ۔ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں جس کو فراموش کر دیا جائے یا چند الفاظ کہہ کر بھلا دینا آسان نہیں۔ یہ بہت بڑا سانحہ ہے جو آسانی سے بھلایا نہیں جاسکتا بلکہ یہ غور فکر کرنے کی دعوت دیتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا جو ہمیں آدھا ملک کھونا پڑا۔ دشمن نے اپنا کام کرنا تھا وہ کر گیا اور مغربی پاکستان میں رہنے والی قیادت اپنے پاکستانی ہونے پر فخر محسوس کرتے رہے ۔ ہم آج بھی جب قائد اعظم کا پاکستا ن کہہ کر پاکستان کا نام لیتے ہیں تو سوچنا چاہیے کہ کیا قائد اعظم نے یہی پاکستان بنایا تھا ؟ جس کی جغرافیائی حدیں اب ریاست پاکستان کا حصہ ہیں ۔ یاوہ نظریات جس کو بنیاد بنا کر قائد اعظم نے پاکستان بنایا تھا ۔ وہ پاکستا ن کا حصہ ہیں ۔ حقیقت اس کے الٹ نظر آئے گی ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ نہ تو ہم پاکستان کی حفاظت کر سکے ہیں اور نہ ان نظریات کی حفاظت کر سکے ہیں اسی وجہ سے سقوط ڈھاکہ پاکستان کی تاریخ کا المناک سانحہ بنا ۔ قائد اعظم نے تو ایک ریاست کے شہریوں کو بغیر کسی تفریق کے تمام حقوق فرہم کرنے کا درس دیا تھا چاہے وہ مشرقی پاکستان کے شہری ہوں یا مغربی پاکستان کے بنیادی حقوق پر تمام کا برابر حق تھا ۔ لیکن ایسا ممکن نہ ہوا اس لیے مشرقی پاکستان کے لوگ اس حد تک چلے گئے کہ الگ وطن کا مطالبہ زور پکڑ گیا ۔ اس میں دشمن کی سازش بھی شامل تھی جس کی خوا ہش یہی تھی کہ پاکستان کی سلامتی اس کو شروع سے ہی کھٹکتی رہی ۔ اس لیے وہ اپنی سازشوں میں مصروف رہا اسور ہم اپنی دھن میں مگن رہے ۔ جس کی وجہ سے پاکستان کا ایک بازو کٹ گیا ۔ جب جسم کے کسی حصے میں چھوٹی سی بھی چوٹ آئے تو پورا جسم درد کی کیفیت سے بے چین ہوجاتا ہے تو اگر جسم سے پورا ایک بازو ہی کٹ جائے تو کتنی تکلیف ہوتی ہے اس کا اندازہ انہی کو ہوتا ہے جس کے سینے میں دل ہو اور ایک سچے پاکستانی کو مشرقی پاکستانی کی علیحدگی کی اتنی تکلیف ہوگی جتنی کسی جسم سے ایک بازوکٹ جانے سے ہوتی ہے ۔ کیونکہ یہ تکلیف بہت بڑی ہے اور اس کو کبھی بھلایا نہیں جا سکتا۔{jcomments on}

اپنا تبصرہ بھیجیں