سفرنامہ نگار محمد توفیق

تحریر ؛شاہد جمیل منہاس

اقوام عالم اور ملک پاکستان کے معروف سپورٹس مین اور بہترین مصنف اور سفرنامہ نگار محترم محمد توفیق کے خوبصورت قلم سے لکھی گئی بارہویں تصنیف اور بہرین سفرنامہ اس وقت ملک پاکستان کی مارکیٹس اور لائیبریز کی زینت بن چکا ہے 5 مارچ 2022 کی شام ایک خوبصورت محفل کا اہتمام کیا گیا جس میں ملک پاکستان کے تراشے ہوئے ہیرے اور باکردار دوستوں نے سماں باندھ دیا۔ ہر شخص اپنی مثال آپ تھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ دنیا میں کوئی ایسا کھلاڑی ہوگا جو 60 برس کی عمر کے بعد بھی دو گھنٹے جاگنگ اور واک کرتا ہو اور ساتھ ہی بے شمار کتب کا مصنف ہو واہ کی تہذیب کے حوالے سے انکی کتاب نے واہ اور ٹیکسلا کو پوری دنیا میں ایک خاص پہچان دے دی یہ شعر اء کے لیے خوب جچتا ہے۔
اس شہر یں کتنے چہرے تھے کچھ یاد نہیں سب بھول گئے
وہ شخص کتابوں جیسا تھا وہ شخص زبانی یاد رہا
محمد توفیق اخلاق بانٹنے والا ایک درویش صفت انسان ہے۔ عاجزی انکی رگ رگ میں عیاں ہے مگر جب بات ہو اصول کی تو ان سے زیادہ سینہ تان کر کھڑا ہونے والا بھی شاید کوئی نہ ہو۔
ازل سے سر بلندی رچ گئی ہے اپنی فطرت میں
ہمیں بس ٹوٹنا آتا ہے جھک جانا نہیں آتا
ایسی بے باقی سے سفر نامے بہت کم لوگ تحریر کرتے ہیں۔ آپ جیسے افراد نایاب ہوتے جارہے ہیں۔ دوستوں سے درخواست ہے کہ ایسے حکمت و دانش والے دوستوں کا دامن تھامے رکھیں اور دعا کریں کہ رب کریم ہمارے نوجوانوں کو انکے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین محمد توفیق صاحب کا یہ بہترین سفر نامہ کسی گوہر نایاب سے کم نہیں۔ توفیق صاحب کی دن رات کی کاوشوں کو اگر ایسے بیان کیا جائے تو
بے جا نہ ہوگا
زندگی تیرے تعاقب میں یہ لوگ
اتنا چلتے ہیں کہ مر جاتے ہیں
چوہدری عطاالرحمن صاحب توفیق صاحب کی باتیں کرتے ہوئے اپنی آنکھیں نم کر لیتے ہیں اور محترم نعیم اشرف اور اشفاق ہاشمی جب چوہدی عطاالرحمن اور محمد توفیق کی باتیں کرتے ہیں تو پلکیں بھگو لیتے ہیں۔ واہ فیکٹری کے ویلفیئر کلب کی یہ خوبصورت شام اور اس کتاب پر اہل علم و دانش کی علم کے سمندر میں بھیگی باتیں تا عمر یاد رہیں گی۔ لوگ اقوام عالم میں سیر کی غرض سے جاتے ہیں اور بے شمار برائیوں کے ساتھ واپسی کا سفر داغدار کرتے ہیں مگر محترم توفیق صاحب جب بھی ملک پاکستان سے باہر گئے اپنے ساتھ علم کا خزانہ لے کر آے جس سے اپنے ارد گرد بسنے والوں کو مستفید کرتے رہے۔ آپ تہذیب یافتہ خاندان کے چشم وچراغ ہیں بھلا خاندانی روایات سے کبھی کوئی آگے پیچھے ہو سکتا ہے؟؟؟ نہیں ہر گز نہیں۔
تہذیب سکھاتی ہے جینے کا سلیقہ
تعلیم سے جاہل کی جہالت نہیں جاتی
محمد توفیق تعلیم کے ساتھ علم و دانش کی باتیں بتا کر جہالت کے سامنے سیسہ پلائی دیوار ہیں جس کے سامنے اس عارضی دنیا والے تا عمر یوں ہی شکست کھاتے رہیں گے یا راہ راست کے مسافر بن جائیں گے۔ آپ کی زندگی اس شعر کے ارد گرد گھومتی ہوئی محسوس ہوتی ہے
شہر میں آکر پڑھنے والے بھول گئے
کس کی ماں نے کتنا زیور بیچا تھا

اپنا تبصرہ بھیجیں