سعودی حکومت کے تشویشناک اقدامات

حالیہ دنوں سعودی حکومت کے چند اقدامات کی وجہ سے امت مسلمہ میں شدید تشویش پائی جاتی ہے۔ یہ اقدامات ایسے ہیں کہ جن کی سعودی حکومت سے خاص طور پر اور کسی بھی مسلم حکومت سے عمومی طور پر توقع نہیں کی جا سکتی بلکہ چند اقدامات کی تو غیر مسلم حکومتوں سے بھی توقع نہیں کی جا سکتی۔ سعودی دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے مقدس ترین سرزمین ہے، بالخصوص حجاز مقدس جو سعوی عرب کا حصہ ہے اس میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ واقع ہیں، جن سے دنیا بھر کے مسلمانوں محبت رکھتے ہیں اور ان مقدس شہروں کے لیے امت مسلمہ کے دل دھڑکتے ہیں۔ ا س مقدس سرزمین پر موجودہ سعودی حکومت نے فحاشی و عریانی کا بازا ر گرم کر رکھا ہے۔ سب سے پہلے تو خواتین کی ڈرائیونگ سے پابندی ختم کی اور پھر خواتین کو حجاب کے پاک بندھن سے بے باک کر دیا۔ پھر رفتہ رفتہ سعودی عرب میں ماڈلنگ کی اجازت دی اور اب وہاں وہاں باقاعدہ میوزکل کنسرٹ منعقد کیے جارہے ہیں۔ یہ کنسرٹ کوئی غیر ملکی نہیں خود خام حرمین سعودی حکمران منعقد کرا رہے ہیں جن میں فحاشی و عریانی کی تمام حدیں عبور کر رہے ہیں۔ خواتین بے پردہ گھومنے لگی ہیں اور نہایت اخلاق باختہ تصاویر سعودی عرب کی مقدس سرزمین سے دیکھنے کو مل رہی ہیں جو امت مسلمہ کی آخری امیدوں کو توڑ رہی ہیں۔ عرب حکمران اس مقدس سرزمین کو ناپاک کرنے کے درپے ہیں۔ اسی طرح عرب حکمران اسرائیل اور فرانس کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ دونوں ممالک مسلمانوں کے شدید دشمن ہیں، اسرائیلی تو یہود ہیں جنہوں نے صرف مسلمانوں ہی نہیں پوری دنیا کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن مسلمانوں سے تو وہ شدید نفرت رکھتے ہیں۔ فلسطینیوں کو تو جو نقصان پہنچایا وہ تو دنیا کے سامنے ہے لیکن پس پردہ یہ تمام عرب ممالک کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور اپنے عظیم تر اسرائیل کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اسلامی ممالک سے خود کو تسلیم کرا کے فوائد حاصل کر رہے ہیں اور دوستی کی آڑ میں ان کے سینوں میں خنجر گھونپ رہے ہیں لیکن عرب ممالک کے حکمران اس سازش سے واقفیت کے باوجود نظریں چرا رہے ہیں۔ متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا اور ا ب سعودی عرب کا بھی جی للچانے لگا ہے۔ چند روز قبل سعودی عرب نے بھی کہہ دیا ہے کہ ہم بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول کے مطابق لا رہے ہیں۔ اب ان کا گزارہ نہیں ہو رہا ہے کہ امریکہ کی حکم عدولی کر کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کیسے خراب رکھیں؟ اسرائیل کو تسلیم کرنے اور فحاشی پھیلانے کا مقصد صرف اور صرف مغربی آقاؤں کو خوش کرنا ہے اس کے سوا اور کوئی وجہ نہیں ہو سکتی کیونکہ اگر اس کا تعلق معاشی ترقی کے ساتھ ہو تو ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ کئی ممالک ایسے ہیں جنہوں نے روز اول سے اسرائیل کو تسلیم کر رکھا ہے اور اس کے ساتھ ان کے گہرے روابط بھی ہیں ایسے ہیں وہاں فحاشی پر بھی کوئی خاص روک تھام نہیں ہے، سینما بھی کافی قدیم ہیں فلمیں بھی بنتی ہیں لیکن وہ ترقی میں دنیا سے بہت پیچھے ہیں۔ ہمارے ہمسایہ ممالک بھارت یا نیپال کو ہی لے لیں جو اسرائیل کے گہرے دوست ہیں ساتھ ہی فلمی دنیا میں بھی بہت آگے ہیں، دوسری طرف عرب ممالک جنہوں نے ابھی تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا یا ابھی تسلیم کیا ہے لیکن وہ ترقی میں بھارت اور نیپال سے کہیں آگے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا ترقی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ لہٰذا اسرائیل کو تسلیم کرنا عرب ممالک کی ضرورت نہیں صرف خواہش ہے۔ اب تبلیغی جماعت پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے، جماعت کو گمراہ اور دہشت گرد قرار دینا سمجھ سے بالا تر ہے۔ تبلیغی جماعت پوری دنیا میں دین اسلام کی شمع جلانے کے لیے تمام ممالک میں پھیلی ہوئی ہے اور عالمی سطح پر انتہائی بہترین نیٹ ورک رکھتی ہے۔ تبلیغی جماعت تو پر امن ہونے میں اپنی مثال آپ ہے، جس پر کبھی کسی غیر مسلم نے بھی انگلی نہیں اٹھائی۔ ان کا مشن صرف یہی ہے کہ لوگوں کو دنیا سے ہٹا کر اللہ کی طرف لایا جائے، کسی طرح مسلمان دین کے مطابق زندگی گزانے والے بن جائیں اور غیر مسلم اسلام میں داخل ہو جائیں۔اس نے کسی غرض اور لالچ کے بغیر گھر گھر دین اسلام کا پیغام پہنچانے کا بیڑہ اٹھا رکھا ہے۔ ہر نیک و بد کے پاس جاتے ہیں اور اس کی منت سماجت کر کے اسے دین کی طرف راغب کرتے ہیں۔ تبلیغی جماعت کی برکت سے کئی گمراہ راہ راست پر آ چکے ہیں۔ جس جماعت نے کبھی اپنے خاص نظریات بھی پیش نہیں کیے وہ کیا گمراہ ہو گی یا اس کی گمراہی کی کیا دلیل ہو سکتی ہے۔ تبلیغی جماعت پر پابندی اصل مسئلہ نہیں بلکہ اصل مسئلہ اس پابندی کے مضر اثرات ہیں جو پوری دنیا پر ظاہر ہو سکتے ہیں اس کے بعد اب دیگر ممالک کی توجہ بھی اس طرف ہو جائے گی اور انہیں بھی معلوم ہو جائے گا کہ یہ بھی کوئی کرنے کا کام ہے۔ کیونکہ اس سے قبل دنیا کے کسی بھی قابل ذکر ملک نے تبلیغی جماعت پر پابندی عائد نہیں کی اور جماعتیں دنیا کے تمام چھوٹے بڑے، مسلم و غیر مسلم ممالک میں بلا روک ٹوک اپنا کام کر رہی ہیں۔ آج تک کسی نے جماعت پر دہشتگردی کا الزام نہیں لگایالیکن اب اسلام دشمن ممالک جب دیکھیں گے کہ سعودی عرب جیسے اسلام کے مرکزی ملک نے تبلیغی جماعت پر پابندی عائد کر دی ہے تو ان کے لیے یہ ایک مثال بن جائے گی اور جماعت پر پابندی عائد کرنا آسان ہو جائے گا۔ یوں دنیا کی سب سے مخلص اور سود مند دینی جماعت کے لیے دنیا میں دین کی اشاعت میں مشکلات پیش آ ئیں گی۔ جن کی ذمہ دار ایک اسلامی حکومت ہو گی۔ یہ دنیا میں دجالی فتنے ہیں جنہیں مسلمان حکومتوں کے ذریعے دنیا پر مسلط کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ لہٰذا عرب حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور یہود نصاریٰ کی محبتمیں اتنے اندھے نہیں ہو جانا چاہیے کہ خود اپنے ہی ہاتھوں اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے میں پہل کرنے لگیں اور یہود و نصاریٰ کو اسلام کے خلاف اقدامات کے لیے آسان راستہ فراہم کریں۔ یہ اقدامات دنیا بھر کے مسلمانوں میں تشویش پیدا کر رہے ہیں اور امت مسلمہ سعودی اور دیگر عرب حکمرانوں کے اقدامات کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔ سعودی عرب کو بالخصوص چاہیے کہ مسلمانوں کے جذبات کا خیال رکھے اور اپنی مرکزی حیثیت کو برقرار رکھتے ہوئے ایسے اقدامات سے گریز کرے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں