سری لنکا کے حالات سے سبق حاصل کریں

سری لنکا اس وقت شدید ترین معاشی بحران کا شکار ہے، ملک دیوالیہ ہو چکا ہے۔ پہلے ہم کبھی ملک کے دیوالیہ ہونے کا تذکرہ کرتے یا سنتے تھے مگر سمجھ نہیں سکتے تھے کہ کوئی ملک دیوالیہ ہو تو اس کے ساتھ کیا ہوتا ہے مگر اب جنوبی ایشیائی اور قریبی ملک سری لنکا کو دیوالیہ ہوتے دیکھا تو معلوم ہوا کہ جب کوئی ملک دیوالیہ ہو جائے تو اس کاتمام کا تمام نظام یکسر تھم جاتا ہے۔ اس کے پاس پیڑول خریدنے کے لیے رقم نہیں ہوتی۔ لہٰذا اس کی تمام مشینری رک جاتی ہے۔ ملک کے کارخانے فیکٹریاں بند ہو جاتی ہیں، پبلک اور پرائیویٹ گاڑیاں نہیں چل پاتیں تو وہ گیراجوں میں یا سڑک کے کنارے کھڑی کر دی جاتی ہیں۔ بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے جس کی وجہ سے سرکاری و پرائیویٹ دفاتر اور ادارے کام نہیں کر سکتے۔ ان کے پاس جنریٹر چلانے کے لیے بھی پیڑول نہیں ہوتا۔ ملک کی سیاحت تباہ ہو جاتی ہے، ہوٹل اور ریسٹورینٹ آٹھ آٹھ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے بند کر دیے جاتے ہیں۔ تعلیمی ادارے بند ہو جاتے ہیں طلباء کے امتحانات اس لیے ملتوی کر دیے جاتے ہیں کہ حکومت کے پاس کاغذ خریدنے کے لیے رقم نہیں ہوتی۔ شناختی کارڈ پاسپورٹ وغیرہ نہیں بن سکتے کیونکہ ان کے لیے شیٹس کی خریداری بھی ممکن نہیں رہتی۔ صنعت اور انڈسٹریز کی بندش سے عوام کی بڑی تعداد بے روزگار ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے ملک میں بھوک اور افلاس ڈیرے ڈال لیتے ہیں۔ لوگ دوسرے ممالک کی طرف نقل مکانی پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
ایسے ملک میں ہر طرف افراتفری کا عالم ہوتا ہے، عوا م حکومت کے خلاف احتجاج کرتے ہیں مگر حکومت عوام کے لیے کچھ بھی کرنے سے قاصر ہوتی ہے۔حکومت ایسے حالات میں صرف اتنا کر سکتی ہے کہ وہ دیگر ممالک کے سامنے جھولی پھیلا دے اور کبھی ایکتو کبھی دوسرے سے مانگنے لگے مگر اتنے دگرگوں حالات میں کوئی بھی ایسی حکومت کا ساتھ نہیں دیتا۔ مجبوراً دیگر ممالک سے قرض لینا پڑتا ہے جس سے ملک قرضوں کے ایک نہ ختم ہونے والے سلسلے میں جکڑجاتا ہے۔ پھر قرضے ختم کرنے کے لیے مزید قرضے لینے پڑتے ہیں اور سود سمیت واپس کرنے کے لیے مزید قرضے لیے جاتے ہیں یوں قرضوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ لیکن ایک بات یہ بھی یاد رکھیں کہ دیوالیہ ہوجانے والے ملک کو قرضے بھی اتنی آسانی سے نہیں ملتے کیونکہ قرض دینے والے بھی پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ ان کے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہے تو یہ ہمارے قرضے کیسے واپس کریں گے؟ اگر قرضے مل بھی جائیں تو ان کے لیے بڑی سخت شرائط رکھی جاتی ہیں جن سے ملکی عزت و وقار تو جاتا ہی ہے ملکی سلامتی بھی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ اگر ملک کے پاس ایٹمی اثاثے ہوں تو وہ سب سے پہلے خطرے میں پڑتے ہیں۔
کوئی ملک ان حالات تک کیسے پہنچتا ہے؟ اس کی بہت سی وجوہات ہوتی ہیں جن میں سے اہم یہ ہیں کہ سیاستدان مفاد پرست ہو جاتے ہیں اور انہیں ملک کی معاشی صورتحال سے زیادہ ایک دوسرے کو کرسی پر بٹھانے اور اٹھانے کی فکر رہتی ہے۔ ملک کے بیوروکریٹس انڈسٹری کو چلنے نہیں دیتے، وہ ہر کام میں مداخلت کرتے ہیں، کاروباری افراد کو ستاتے رہتے ہیں ان کے کام رشوت کی خاطر لٹکائے رکھتے ہیں، جس کی وجہ سے انڈسٹریز ترقی نہیں کر سکتیں اور غیر ملکی سرمایہ کار بھی ایسے ممالک میں سرمایہ کاری کرنے سے کتراتے ہیں۔ اسی طرح ملک میں سرکاری محکموں میں بڑی تعداد میں بھرتیاں ہوتی ہیں اور یہ بھرتیاں ضرورت سے کہیں زیادہ ہوتی ہیں، ان کا مقصد افسروں کی آمدن اور سیاستدانوں کے ووٹ بینک میں اضافہ کرنا ہوتا ہے۔ ملک کو قرضوں کی عادت ہو جاتی ہے اور چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کے لیے بھی قرض
لیے جاتے ہیں۔ نوجوان ہنر سیکھنے کی بجائے ڈگریاں حاصل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ملک میں ہنر مند افراد کم اور ڈگریاں لے کر ملازمتیں تلاش کرنے والے زیادہ ہوتے ہیں، یہ صورتحال بھی ملکی معیشت کے لیے خطرے کا باعث بنتی ہے۔اسی طرح جو لوگ ملک کے کرتا دھرتاہوتے ہیں یعنی سیاستدان اور بیوروکریٹس انہیں ملکی مفادات سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی وہ ہمیشہ اپنے مفادات کو پیش نظر رکھتے ہیں۔ وہ عوام کو گمراہ کرتے رہتے ہیں اور ان کی صلاحیتیں اور وقت سیاسی جھگڑوں میں ضائع کرتے ہیں۔
مذکورہ بالا تمام تر بحث کے بعد پہلے ہم سری لنکا کی دگرگوں صورتحال کو دیکھیں تو وہ ان حالات کو پہنچ چکا ہے کہ وہ دیوالیہ ہو چکا ہے اور مذکورہ بالا تمام تر مسائل سے دوچار ہے اوراوپر بیان کی گئی غفلتوں کی وجہ سے ہی وہ اس صورتحال کو پہنچا۔ اس کے بعد پاکستان کے حالات کا جائزہ لیں تو اس کے حالات بھی سری لنکا سے زیادہ مختلف نہیں ہیں اور ہم بھی سری لنکا کے حالات تک پہنچنے کے لیے پوری کوشش کر رہے ہیں، ملک کو دیوالیہ پن تک پہنچانے کے لیے ہم سب اپنا اپنا حصہ ڈال رہے ہیں اور جن وجوہات کی بنا پر کوئی ملک دیوالیہ ہوتا ہے وہ تمام وجوہات ہم میں بدرجہ اتم موجود ہیں جنہوں نے ہمیں سری لنکا کے حالات کے قریب ترپہنچا دیا ہے۔
فرق صرف اتنا ہے کہ سری لنکا کے پاس کھونے کے لیے کوئی خاص چیز نہیں ہے مگر ہمارے پاس کھونے کو بہت کچھ ہے۔ مثلاً ہمارے پاس ایٹمی اثاثے ہیں، ہمارے پاس سی پیک اور گوادر ہے۔ اگر پاکستان خدانخواستہ پاکستان ان حالات کو پہنچتا ہے تو ہمیں سب سے پہلے قدرت کے ان انمول تحفوں سے ہاتھ دھونا پڑے گا اور اگر یہ اثاثے ہم نے گنوا دیے تو پھر ہمارے پاس کچھ نہیں بچے گا۔ پھر ہمیں فلسطین اور تازہ حالات میں دیکھیں یوکرین بننے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ پھر ہمارا ملک ہی نہیں ہمارے ایمان بھی داؤ پر لگ جائیں گے۔ ایک فرق یہ بھی ہے کہ سری لنکا غیر مسلم ملک ہے جس کی وجہ سے دنیا کی بڑی طاقتیں اور بھارت بھی اس کی کسی حد تک مدد کرنے کی کوشش کر رہا ہے مگر ہم الحمد للہ مسلمان ہیں اور اسلامی ممالک میں نمایاں حیثیت رکھتے ہیں، ہماری جغرافیائی حیثیت بھی ایک اسلامی ملک ہونے کی وجہ سے دنیا کی آنکھوں میں کھٹکتی ہے تو ہماری کسی نے مدد نہیں کرنی بلکہ ایسے حالات میں ہم سے وہ سب کچھ چھیننے کی کوشش کی جائے گی جو وہ چھیننے کی کوشش گزشتہ کئی دہائیوں سے کر رہے ہیں مگر ناکام ہیں۔ لیکن جب (اللہ نہ کرے) ہمارے پاس اپنی حفاظت کے لیے کچھ نہ رہا تو یہ کام وہ دنوں میں کر گزریں گے۔ ہماری تو یہ حالت ہے کہ جو ملک ہمیں سب سے زیادہ عزیر ہے اور حرمین شریفین کی وجہ سے ہم اس پر جان بھی قربان کرنے کو تیار رہتے ہیں یعنی سعودی عرب، اس سے بھی قرضہ لیں تو وہ آئی ایم ایف سے بھی کڑی شرائط پر قرضہ دیتا ہے۔
لہٰذا اب بھی وقت ہے ہم سری لنکا کے حالات سے سبق حاصل کریں اور خود ہی سدھر جائیں۔ ہم کسی دوسرے ملک کی طرف نہ دیکھیں بلکہ اپنی مدد آپ کے تحت اپنی معاشی حالت بہتر بنانے کے لیے سخت اور مؤثر اقدامات کریں۔اس کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ تمام ادارے ملک بیٹھ کر اس کا حل تلاش کریں اور تمام سیاستدان سر جوڑ لیں کہ سیاسی جوڑ توڑ بعد میں کر لیں گے پہلے ملکی معیشت کو تباہ حالی سے بچائیں، کسی طرح ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیں۔ یہی ایک طریقہ ہے ورنہ ملک نہایت خطرناک کھائی کی طرف جا رہا ہے بلکہ اس کے بہت قریب پہنچ چکا ہے،پھر اس سے کوئی نہیں بچ سکے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں