سرکل ساگری‘ زکوۃ کمیٹیاں اور بلدیاتی ادارے‘آصف شاہ کا تبصرہ

اپنے ارد گرد نگاہ دوڑائیں تو بے شمار ایسے چہرے نظر آئیں گے جنہوں نے اپنا کام چھوڑ رکھا ہو گا اور دوسرے کے کام میں ٹانگ اڑا رکھی ہوگی،بصد شکر کہ قانو گو ساگری میں زکوۃ کمیٹیوں کی تشکیل کی سرد جنگ صداقت عباسی گروپ کی کامیابی پر ختم ہوا،لیکن سب سے زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ اس قانو گو میں تقریبا19کمیٹیاں بنتی ہیں لیکن 11کمیٹیوں کا سرے سے وجود ہی نہیں ہے اس کا مطلب کہ اس سے پہلے چیئرمین زکوۃمن مرضی سے کام کرتے رہے ہیں اور من پسند افراد کو زکوۃ کے پیسوں سے مستفید کرتے رہے ہیں اس حوالہ سے کیا کوئی کاروائی ہوگی اس کا جواب یقینا اس حلقہ میں موجود تحریک انصاف کے بے تحاشہ کھڑپینچ ہی دے سکتے ہیں اب اللہ کرے کہ رمضان میں ہی کمیٹیاں پایہ تشکیل کو پہنچ جائیں تاکہ مستضقین زکوۃ اپنی عید کو پر مسرت بنا سکیں جو گزشتہ نوماہ سے اسی آس میں ہیں اب ایک رخ دوسری جانب کہ بچپن کا دور غریبی کا دور تھا اس وقت کے کھیل تماشے بھی عجیب تھے اگر کوئی بال بیٹ یا فٹبال لے آتا تو وہی کپتان ریفری اور سب کچھ ہوتا تھااس کی حکم عدولی سے آپ گیم سے باہر ہوسکتے تھے اس کا جب جی چاہتا وہ اپنا سامان اٹھاتا اور کھیل ختم کرنے کا اعلان کرتا کسی میں جرات نہ ہوتی کہ اس کیساتھ پھڈا ڈال سکے بس اس وقت یہی مثال تحریک انصاف کی حکومت کی ہے گزشتہ الیکشنوں میں منتخب ہونے والے لاڈلے ایم این اے اور ایم پی اے ہاتھوں کا چھالہ بنے ہوئے ہیں اور اس مبارک ماہ کے تقدس کی وجہ سے وہ حلقہ میں آنا گوارا نہیں کرتے دوسری طرف حکومت وقت نے بلدیاتی نمائندوں کو عضو معطل بنا کر رکھ کر۔۔نہ کھیڈساں۔۔تے نہ کھیڈن دیساں کے محاورے کو عملی شکل دے دی ہے نئے بلدیاتی نظام کے نام پر پرانے منتخب نمائندوں کو کام کرنے سے روک دیا ہے حکومت میں آنے سے پہلے تحریک انصاف کی لیڈر شپ بلند بانگ دعوے کرتی تھی کہ ہم ایسے نظام کو تبدیل کریں گے جس میں سیاسی مداخلت کم ہوگی عوام کو ریلیف ملے گا لیکن اب تک کے حقائق اس سے یکسر مختلف ہیں اگر ہم بلدیاتی نمائندوں پر سیاسی وار کر کے حکومت نے ایک اور یو ٹرن لے لیا گزشتہ ادوار پر اگر نظرڈالیں تو بیشتر نام ایسے ہیں جنہوں نے چند سالہ دور میں عوام فلاح کے بیشتر کام انتہائی شاندار طریقے سے مکمل کروائے وائس چیئرمین یوسی غزن آباد ظفر مغل نے سر پر کھڑے ہوکر عوامی کاموں کو نہ صرف پایہ تکمیل تک پہنچایا بلکہ ا برے کو اس کے گھر تک پہنچاے کی ایک مثال قائم کی گوکہ ان کے ساتھ چیئرمین یوسی بھی موجود تھے لیکن وہ ہر کام سے پرے پرے ہی رہے یوسی بشندوٹ کی بات کی جائے تو زبیر کیانی کا نام بلاشبہ ٹاپ آف لسٹ میں آتا ہے جھوں نے چند سال پہلے زاتی تگ دو سے یوسی میں کارپٹ روڈ اور نالے بنوائے جو عرصہ گزرنے کے باوجود انتہائی شاندار حالت میں موجود ہیں اس کے علاوہ انہوں نے یوسی میں بجلی کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے متعدد پول اورٹرانسفارمر بھی لگوائے سرکاری فنڈز سے ہٹ کر انہوں نے جہاں ضروری سمجھا وہاں پر زاتی پیسوں کی پرواہ نہ کی یوسی ساگری کی اگر بات کی جائے تو چیئرمین راجہ شہزاد یونس کی ایک کارکردگی ان کے پورے کیرئیر کی خامیوں پر بھاری نظر آتی ہے اور وہ ہے مانکیالہ اسٹیشن تا ڈھکالہ روڈ کی تعمیر یہ روڈ عوام کے لیے قیام پاکستان سے لیکر اب تک ایک مسلہ بنا ہوا تھا اود ریلوے کی سرکاری زمین کی باعث عوام کو شدید مشکلات کا سامنا تھا لیکن انہوں نے لوگوں کی زاتی طور پر منتیں سماجتیں کرکے اس نہ ہونے والے پروجیکٹ کو پایہ تکمیل تک پہنچا دیا یوسی لوہدرہ کی بات کی جائے تو چیئرمین یوسی نوید بھٹی اور وائس چِئرمین راجہ یونس عوامی کاموں میں ایک دوسرے سے آگے نظر آتے ہیں یہ شائید
واحد یوسی تھی جہاں پر گزشتہ دور حکومت میں گیس کا پروجیکٹ لگا اس کے علاوہ منتخب نمائندوں کی کوششوں سے یوسی نے اندر سے 5 سے زائد بائی پاس کی تعمیر کی گئی جو ایک ریکارڈ ہے اسی یوسی کے چیئرمین اور وائس چیئرمین نے باقاعدہ ایک پبلک سیکرٹریٹ بنا کر نہ صرف عوام کو جو ہو سکا ریلیف دیا بلکہ انہوں نے تھانہ تک جانے والے معاملات کو بطریق احسن خود بیٹھ کر حل کروایا یوسی تخت پڑی میں چوہدری خلیل کا کردار بھی انتہائی شاندار رہا ان کو مقامی طور پر سخت سیاسی مخالفت کا سامنا رہا لیکن انہوں نے نہ صرف اس کا منہ توڑ جواب دیا بلکہ انہوں نے یوسی کے عوام کے لیے متعدد پراجیکٹ بھی لیے یوسی بگا شیخاں میں چیئرمین اور وائس چیئرمین کی چپقلش نے عوام کو وہ ریلیف تو نہ دیا جس کے لیے انہوں نے ان نمائندوں کو منتخب کیا تھا لیکن چیئرمین یوسی اپنی طرف سے کچھ نہ کچھ کرنے کی سعی کرتے رہے انہیں جہاں ایک طرف اپنے وائس چیئرمین اور کونسلرز کی مخالفت کا سامنا تھا وہاں دوسری طرف چوہدری نثار اور اس کے کارخاصوں سے بھی محاز آرائی جاری تھی جس کا اثر یہ ہوا کہ ان کو فنڈز جاری نہ کیے گے لیکن گزشتہ انتخابات کے بعد صداقت عباسی اور غلام سرور خان ان علاقوں کو تاحا ل کوئی بڑا پیکیج نہ دے سکے گوکہ اعلانات کو دیکھا جائے تو اس کی ایک لمبی لسٹ موجود ہے دوسری جانب ان کی بنائی ہوئی کمیٹیا ں بھی اب بے بس نظر آتی ہیں اور وہ اپنی عوام سے لکن چھپائی کھیلنے پر مجبور ہیں کیونکہ ان کے لیڈران تاحال ان کو کچھ نہ دے سکے ہیں عوام کو صبر اور صبر کا درس دیا جارہا ہے لیکن کب تک یقینا مشکلات کے بعد آسانیاں ہیں لیکن تاحال منتخب نمائندوں کی جانب سے اپنے حلقہ کی عوام کے لیے کوئی واضع روڈ میپ نظر نہیں آرہا ہے اگر یہی حالت رہی تو یقینا بلدیاتی انتخابات میں عوام کو رد عمل مختلف ہو سکتا ہے،اتنا مختلف جس کی شائید توقع نہ ہو۔

اپنا تبصرہ بھیجیں