سرکار ی تعلیمی اداروں پر عوام کا بڑھتا ہوا اعتماد/محمد اشفاق

تعلیم ہر بچے کا بنیادی حق ہے اور والدین کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو ان کاحق دینے کی بھر پور سعی کریں اس حق سے محروم رہ جانے والا بچہ ساری زندگی ایک نا مکمل شخص تصور کیا جاتا ہے بعض والدین کی مجبوریاں بھی ہوتی ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو زیادہ اچھی تعلیم دلوانے سے

قاصر رہتے ہیں تعلیم خواہ گورنمنٹ سکول سے حاصل کی جائے یا پرائیویٹ سیکٹر سے اس کا معیاری ہونا بہت ضروری ہوتا ہے غریب والدین کے لیے سر کاری سکول ہی ہوتے ہیں کیوں کہ پرائیوٹ سکول کے اخراجات برداشت کرنا ان کے بس کے بات نہیں ہوتی ہے کچھ عرصہ قبل سرکاری سکولوں کا ماحول اچھا نہ ہونے کی وجہ سے پرائیوٹ سکولز کی اہمیت زیادہ بڑھ گئی تھی والدین بچوں کو سرکاری کے بجائے پرائیوٹ سکولوں سے تعلیم کو اہم سمجھنے لگ گئے اس کی بنیادی وجوہات اساتذہ کی میرٹ سے ہٹ کر تعیناتیاں ان کے چیک اینڈ بیلنس کا نہ ہونا کتابیں مہنگی خریدنا والدین اور اساتذہ کے درمیان ہم آہنگی نہ ہونا تھی جب کہ ایک بڑی وجہ جسمانی سزا بھی تھی جو کہ پرائیوٹ سکول میں نہ تھی جس وجہ سے بچے پرائیویٹ سکولز میں داخلے لینے میں ہی خوشی محسوس کر نے لگے جس کے باعث پرائیوٹ سکولز نے بہت زیادہ ترقی حاصل کی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ پرائیوٹ سکولز نے بھی تعلیم کو عام کرنے میں نہایت اہم کردار ادا کیا ہے اور اب بھی کر رہے ہیں جب کہ ساتھ ہی پرائیویٹ سکول مالکان نے کچھ غلطیوں اور کو تاہیوں کا مظاہرہ بھی شروع کر دیا ہے جیسے فیسوں میں بے تحاشہ اضافہ غیر تربیت یافتہ اسٹاف کی انتہائی کم تنخواہ پر تعیناتی اور معمولی سی بات پر استاد کو تبدیل کر دینا‘ روٹین کی فیس کے ساتھ ساتھ کچھ بے نام فیسیں بھی شامل ہیں ان تمام وجوہات کی بنا پر موجودہ وقت میں ان کی اہمیت میں کمی واقع ہونا نظر آرہی ہے جب کہ دوسری طرف گورنمنٹ نے اپنی تمام تر توجہ سرکار سکولوں پر مرکوز کر لی ہے اب سرکاری سکولوں میں اساتذہ کی این ٹی ایس کے ذریعے خالص میرٹ پر بھرتیاں شروع کر دی ہیں جس سے بی ایس سی اور ایم ایس سی اساتذہ گورنمنٹ سکولز میں آرہے ہیں جب کہ نصاب بھی انگلش میڈیم اور نہایت ہی معیاری کر دیا ہے اساتذہ اور سکولز کی نگرانی انتہائی اعلیٰ مانیٹرنگ سسٹم کے ذریعے کی جارہی ہے اور مانیٹرینگ کا نظام اتنا بہتر کر دیا گیا ہے کہ ایک ایک گھنٹے کے بعد ان کو چیک کیا جا رہے اور اس وقت اساتذہ کا سکول ٹائم سے آگے پیچھے ہونا ناممکن ہوکر رہ گیا ہے ساتھ ہی گورنمنٹ نے سرکاری سکولوں کی عمارتوں کو بھی نہایت خوبصورت بنانا شروع کر دیا ہے وسیع کھیل کے میدان اور سکیورٹی کے بھی معقول انتظامات ترتیب دے دیے ہیں ہر زیر تعلیم بچے کو درسی کتب مفت فراہم کی جارہی ہیں جس سے غریب والدین کو بوجھ بہت کم ہو گیا ہے فیسیں اتنی تھوڑی ہیں کہ عام آدمی بھی آسانی سے ادا کر سکتا ہے اور سب سے بڑھ کے یہ کہ جسمانی اور نفسیاتی سزا کا مکمل خاتمہ کر دیا گیا ہے اور بچے بلاخوف و خطر تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور حال ہی میں گورنمنٹ نے یہ پابندی بھی عائد کر دی ہے کہ کسی بھی سرکاری سکول میں کوئی طالب علم سکیورٹی پر معمور نہیں کیا جائے گا اورکسی بھی بچے سے سکول کی صفائی ستھرائی کا کام نہیں لیا جاسکے گا اور ایسا کام کرنے والے سکول سربراہان کے خلاف کاروائی عمل میں لائی جائے گی اس عمل سے بھی بچوں کے حوصلے مزید مضبوط ہوئے ہیں لیکن ایک بات کا فقدان اب بھی موجود ہے وہ یہ کہ سکول انتظامیہ والدین سے کونسلنگ کو اہمیت اب بھی نہیں دے رہے ہیں جس کے باعث والدین اپنے بچوں کے بارے میں تشویش کا شکار رہے ہیں اور بعض سکولوں میں ایسا بھی ہو رہا ہے کہ ریزلٹ کے دن بھی والدین کو مدعو نہیں کیا جاتا ہے اور نہ ہی والدین کے ساتھ کوئی باقاعدہ میٹنگز وغیرہ کی جاتی ہیں وزیر اعلیٰ پنجاب کو اس جانب خصوصی توجہ دینا ہو گی کہ جہاں سرکاری سکولوں سے متعلق اتنے اہم کارنامے سر انجام دیے ہیں وہاں یہ حکم بھی جاری کریں کہ مہینے میں کم از کم ایک بار تو ہر سکول والدین کو دعوت دے اور ساتھ ہی تمام ای ڈی اوز کو ہدایات جاری کی جائیں کہ وہ ہر سکول سے اساتذہ اور والدین کی منعقدہ میٹنگز کی تصویریں طلب کریں تا کہ یہ ثابت ہو سکے کہ واقع ہی سکول سر براہان والدین کے ساتھ میٹنگ کر رہے ہیں اس عمل سے بھی والدین کااعتما د مزید بڑھے گا اور بہت سے مسائل میں کمی واقع ہو گی یہی وہ اسباب ہیں جن سے متاثر ہو کر عوام نے ایک بار پھر سرکاری سکولوں کا رخ کرنا شروع کر دیا ہے اگر گورنمنٹ سرکاری سکولوں میں رہ جانے والی کچھ مزید کوتائیوں پر توجہ دے تو مزید بہتری کی توقع کی جاسکتی ہے پرائیویٹ سکول مالکان اور انظامیہ کو بھی اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنی چاہیے فیس لینا ان کا حق بنتا ہے کیوں کہ بلڈنگز کے بھاری کرائے یوٹی لیٹی بلز اور اس طرح کے دیگر کئی اخرجات بھی برداشت کرنا پڑتے ہیں لیکن ساتھ ساتھ غریب والدین کی مجبوریوں کو بھی مدنظر رکھیں فیسوں سے متعلق کچھ کیٹگریز ترتیب دیں نصاب کسی من پسند جگہ سے خریدنے پر مجبور نہ کریں اسٹاف کو بغیر کسی بڑی وجہ کے تبدیل یا نکال دینے سے پرہیز کریں کیوں کہ اس عمل سے بھی بچوں کا بہت زیادہ نقصان ہوتا ہے نئے آنے والے اساتذہ کو ایڈجسٹ منٹ کیلئے وقت درکار ہوتا ہے بے معنی تقاریب سے اجتناب‘ریگولر فیسوں کے علاوہ بے نام فیسیں لینا ختم کرنا ہونگی کیونکہ سرکاری تعلیمی اداروں کی جانب عوام کا بڑھتا ہوااعتمادپرائیویٹ سیکٹر کیلئے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے ۔{jcomments on}

 

اپنا تبصرہ بھیجیں