ضلع راولپنڈی کے دو بڑے سرکاری ہسپتال، تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال کہوٹہ اور ٹی ایچ کیو ہسپتال گوجرخان، حالیہ دنوں ایسے شرمناک اور افسوس ناک واقعات کی زد میں آ چکے ہیں جنہوں نے پورے ضلع کی فضا کو سوگوار کر دیا ہے۔ پہلے کہوٹہ ہسپتال میں وڈیو اسکینڈل منظر عام پر آیا اور اب گوجرخان ہسپتال میں خواتین کے باتھ روم میں فحش ویڈیوز بنانے کا انکشاف ہوا ہے۔ ان واقعات نے نہ صرف عوامی حلقوں میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی ہے بلکہ محکمہ صحت کی کارکردگی اور نگرانی پر بھی گہرے سوالات اٹھا دیے ہیں۔
یہ وہی ہسپتال ہیں جنہیں مریض اپنے دکھوں کا مداوا سمجھ کر آتے ہیں، جہاں خواتین علاج کی غرض سے بے فکری سے جاتی ہیں، مگر اب یہی مقامات ان کے لئے عدم تحفظ کی علامت بنتے جا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر ان واقعات کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ کیا محض چند افراد کو گرفتار کر کے یا ایک دو تبادلوں سے معاملہ دبا دیا جائے گا، یا اس کی جڑ تک پہنچ کر کوئی مستقل حل بھی نکالا جائے گا؟
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کی جانب سے صحت کے شعبے میں انقلابی اقدامات کے دعوے ضرور کئے جا رہے ہیں، اور بلاشبہ موبائل ہسپتال، جدید مشینری، اور فری میڈیکل کیمپس جیسے منصوبے بھی خوش آئند ہیں۔ مگر عوام یہ بھی سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ اگر سرکاری ہسپتالوں میں خواتین کی عزت و حرمت بھی محفوظ نہیں، تو ان ترقیاتی منصوبوں کی حیثیت کیا رہ جاتی ہے؟
ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب ان واقعات کا نوٹس صرف میڈیا بیانات کی حد تک نہ لیں، بلکہ عملی سطح پر ایسے اقدامات کیے جائیں جو اس بگاڑ کو روکے۔ ہسپتالوں میں خواتین کے باتھ رومز اور دیگر حساس مقامات پر سیکیورٹی کیمرے، خواتین سیکیورٹی اسٹاف کی تعیناتی، اور نگرانی کا مربوط نظام فوری طور پر نافذ کیا جائے۔ ساتھ ہی ساتھ، ایسے مکروہ حرکات کے مرتکب افراد کو مثالی سزائیں دے کر نشان عبرت بنایا جائے تاکہ کسی کو آئندہ ایسی حرکت کرنے کی جرات نہ ہو۔
یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ معاملہ صرف ایک ادارے یا شہر تک محدود نہیں، بلکہ یہ ہمارے معاشرے کے اجتماعی ضمیر کا امتحان ہے۔ اگر ہم نے اب بھی آنکھیں بند رکھیں تو کل کسی اور کی بیٹی، بہن یا ماں ایسے ہی کسی سانحے کا شکار ہو سکتی ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم غفلت کی نیند سے جاگیں اور اپنے اداروں کو درست سمت میں گامزن کریں۔ ورنہ عوام کا اعتماد ایک بار جو ٹوٹا، پھر بحال ہونا ممکن نہیں ہوگا۔
تحریر: ساجدجنجوعہ